[آج کا دن] سہواگ کی تاریخی ٹرپل سنچری، سرزمینِ پاک پر پہلی بھارتی فتح

1 1,102

بھارت کو عرصہ دراز سے دنیا کے بہترین بلے بازوں کی ’جنم بھومی‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور گزشتہ چند دہائیوں سے تو ہند کے بلے بازوں کا دنیا پر راج ہے لیکن اس کے باوجود حیران کن طور پر چند سال قبل تک اس کا کوئی کھلاڑی ٹیسٹ ٹرپل سنچری نہیں بنا پایا تھا اور یہ کارنامہ پہلی بار 8 سال قبل آج ہی کے روز ملتان میں شعلہ فشاں بلے باز وریندر سہواگ نے انجام دیا۔

’گرد، گدا، گرما اور گورستان‘ کی سرزمین ملتان میں 2004ء کے موسم بہار میں ہونے والا ٹیسٹ مقابلہ 15 سال کے طویل عرصے کے بعد بھارت کے پہلے دورۂ پاکستان کا نقطہ آغاز تھا۔ بھارت نے پاکستان کے اِس سے قبل پاکستان کے 5 دورے کیے تھے، کبھی کوئی سیریز تو کجا ایک ٹیسٹ مقابلہ بھی نہیں جیتنے پایا تھا۔ ہر مرتبہ اسے یا تو شکست کا منہ دیکھنا پڑا یا مقابلہ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہو جاتا۔ یوں بھارت اب تک روایتی حریف کے خلاف اُسی کی سرزمین پر فتح کا مزا نہیں چکھ پایا تھا۔ ماضی کی تمام سیریز میں مایوس کن ترین معرکہ 1982-83ء والا تھا جس میں بھارت کو 6 میں سے تین ٹیسٹ میچز میں بدترین ہار سہنا پڑی، وہ بھی اننگز اور 10 وکٹوں کے بھاری مارجنز سے۔

وریندر سہواگ بھارت کی تاریخ پہلے ٹرپل سنچری میکر بنے، اور پاکستانی سرزمین پر پہلی بھارتی فتح کی بنیاد رکھی (تصویر: Getty Images)
وریندر سہواگ بھارت کی تاریخ پہلے ٹرپل سنچری میکر بنے، اور پاکستانی سرزمین پر پہلی بھارتی فتح کی بنیاد رکھی (تصویر: Getty Images)

اس پس منظر کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے لیے ملتان ٹیسٹ کی اہمیت کیا تھی؟ جہاں بھارت پر ’قسمت کی دیوی‘ بھی مہربان دکھائی دی اور ٹاس جیت کر بیٹنگ کے فیصلے کے ساتھ ہی سہواگ کے بلے نے مقابلے کے نتیجے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کے باؤلنگ دستے میں گو کہ دنیا کے دو تیز ترین باؤلرز شعیب اختر اور محمد سمیع اور ’اسپن جادوگر‘ ثقلین مشتاق شامل تھے لیکن کس میں ہمت تھی کہ وہ سہواگ کے بلے سے اگلنے والے رنز کا سیلاب کے سامنے بند باندھ سکے؟ جو ابتدا ہی سے جارحانہ موڈ میں تھے اور پہلے ہی روز کھانے کے وقفے کے بعد 107 گیندوں پر اپنی سنچری مکمل کر ڈالی اور چائے کے وقفے پر وہ 155 رنز پر ناقابل شکست تھے۔ جب پہلے روز کا کھیل ختم ہوا تو وہ 228 رنز کے ساتھ پاکستانی سرزمین پر کسی بھی ہندی بلے باز کی جانب سے بنایا گیا سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ توڑ چکے تھے۔ یہ ریکارڈ ان سے قبل سنجے مانجریکر کے پاس تھا جنہوں نے 221 رنز بنائے تھے۔ سہواگ کے انداز سے واضح طور پر جھلک رہا تھا کہ وہ کچھ غیر معمولی کرنے جا رہے ہیں اور پہلے روز کے اختتام پر ہی انہوں نے اپنے اس ارادے کو ظاہر کیا کہ وہ بھارت کے پہلے ٹرپل سنچری میکر بننے کے لیے جائیں گے۔

بہادری و حوصلہ مندی کے باعث جانے مانے سہواگ کی جرات کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بھارت کے دیگر ’مہان‘ بلے بازوں کے مقابلے میں کبھی ریکارڈ کے لیے نہیں کھیلتے اور انہوں نے اتنی تاریخی ٹرپل سنچری کے قریب پہنچنے کے باوجود ثقلین مشتاق کو ایک چھکا رسید کر کے اس سنگ میل کو عبور کیا اور تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر لیا۔

509 کے مجموعی اسکور پر جب سمیع کی ایک گیند سے سہواگ کے بلے کا کنارہ لیتی ہوئی پہلی سلپ میں کھڑے توفیق عمر کے ہاتھوں میں گئی تو سہواگ کی اس عظیم الشان اننگز کا خاتمہ ہوا جس میں انہوں نے 39 چوکوں اور 9 چھکوں کی مدد سے 309 رنز بنائے اور صرف 375 گیندوں کا استعمال کیا۔ 364 گیندوں پر بنائی گئی ٹرپل سنچری تاریخ کی تیز ترین ٹرپل سنچری تھی۔ بعد ازاں اپنے اس ریکارڈ کو سہواگ ہی نے 2008ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف توڑا جب انہوں نے 278 گیندوں پر ٹرپل سنچری بنائی۔ اب بھی وہ ہندوستان کی تاریخ کے واحد بلے باز ہیں جنہوں نے ٹرپل سنچری کا سنگ میل عبور کیا ہے۔ ان کے علاوہ آج تک یہ اعزاز سچن تنڈولکر اور راہول ڈریوڈ تک کو بھی نہیں مل سکا۔

انفرادی ریکارڈ کے علاوہ بھارت نے پاکستان کے خلاف سب سے بڑے مجموعے کا ریکارڈ بھی بنایا یعنی 675 رنز، جبکہ تیسری وکٹ پر سہواگ اور سچن نے 336 رنز جوڑ کر تیسری وکٹ پر بھارت کی کسی بھی ملک کے خلاف سب سے بڑی شراکت داری بھی قائم کی۔ یوں دو ہی دن میں بھارت نے ریکارڈز کے انبار لگا دیے اور پاکستان اس کے بوجھ تلے ایسا دبا کہ پھر باہر نہ نکل پایا اور دو اننگز کھیل کر بھی اس مجموعے کو حاصل نہ کر سکا۔

لیکن بھارتی اننگز کا ایک عجیب و غریب و افسوسناک پہلو بھی تھا، کیونکہ اس میں سچن تنڈولکر کو اپنی ڈبل سنچری مکمل نہیں کرنے دی گئی۔ جب 675 کے مجموعے پر یووراج سنگھ 59 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو راہول ڈریوڈ نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کر دیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ سچن 194 رنز پر ناقابل شکست کھڑے ہیں یعنی اپنی ڈبل سنچری سے محض 6 رنز کے فاصلے پر، لیکن اس کے باوجود اننگز کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔

بہرحال، بھارت کی اس جامع کارکردگی کا پاکستان کے پاس کوئی جواب نہ تھا جو پہلی اننگز میں 407 رنز پر آؤٹ ہو گیا اور یوں فالو آن کا شکار ہوا۔ یاسر حمید 91 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے اور جن سے امید تھیں یعنی انضمام الحق اور یوسف یوحنا وہ کوئی بہت بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے۔ انضمام الحق نے 77 رنز بنائے جبکہ یوسف محض 35 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ یاسر اور انضمام نے تیسری وکٹ پر 160 رنز جوڑے جو واحد اہم شراکت داری تھی لیکن پاکستان کو ایسی کم از کم تین رفاقتوں کی ضرورت تھی جو وہ نہ حاصل کر سکا اور فالو آن کا شکار ہو گیا۔

پہلی اننگز میں بھارت کی جانب سے عرفان پٹھان نے سب سے زیادہ 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ انیل کمبلے اور سچن تنڈولکر کو دو، دو وکٹیں ملیں۔

خوشی سے دمکتے بھارتی ٹیم کے چہرے، دائیں سے بائیں وریندر سہواگ، یووراج سنگھ، انیل کمبلے، سچن تنڈولکر، راہول ڈریوڈ اور وی وی ایس لکشمن (تصویر: AFP)
خوشی سے دمکتے بھارتی ٹیم کے چہرے، دائیں سے بائیں وریندر سہواگ، یووراج سنگھ، انیل کمبلے، سچن تنڈولکر، راہول ڈریوڈ اور وی وی ایس لکشمن (تصویر: AFP)

لیکن فالو آن کے بعد پاکستان کی حالت اور پتلی ہو گئی اور ان کے بلے بازوں کے پاس انیل کمبلے کی گیند بازی کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ خصوصاً کپتان انضمام کا پہلی گیند پر صفر پر لوٹ جانا پاکستانی خیمے کے حوصلوں کو پست کر دینے کے لیے کافی تھا اور ٹیم آخر تک اس صدمے سے باہر نہ آ سکی۔ سوائے یوسف کے 112 رنز کے، جو سب سے آخر میں آؤٹ ہوئے، کسی ساتھی بلے باز نے قابل ذکر مزاحمت نہیں کی اور پوری ٹیم محض 216 پر ڈھیر ہو گئی۔ یوں بھارت ایک اننگز اور 52 رنز کے بہت بڑے مارجن سے ایک شاندار فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ انیل کمبلے نے دوسری اننگز میں 6 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں عرفان پٹھان کو ملیں۔

بلاشبہ یہ انضمام الحق کے دور قیادت کا نقطہ زوال تھا کیونکہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے، بلکہ اب تک کے واحد، کپتان بنئے جنہیں اپنی ہی سرزمین پر روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں سیریز میں شکست کی ذلت اٹھانا پڑی۔ جبکہ چند روز قبل ہی بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے والے راہول ڈریوڈ کا بلاشبہ بطور کپتان یہ سب سے یادگار مقابلہ ہوگا۔

اس بدترین ہار کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ کے افق کا ایک ستارہ بھی غروب ہوا، عظیم اسپنر ثقلین مشتاق، جن کا یہ آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔ بھارت کی واحد اننگز میں انہوں نے 43 اوورز کرائے اور 204 رنز دے کر صرف ایک وکٹ حاصل کی اور سہواگ کے ہاتھوں بننے والی درگت نے ان کے بین الاقوامی کیریئر کا خاتمہ کر دیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک ہی مقابلے میں یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ کھلاڑی کا مستقبل کیا ہوگا؟ گو کہ پاکستان کے پاس ثقلین مشتاق کا کوئی اچھا متبادل موجود نہیں تھا اور ان کی عمر بھی اس وقت صرف 29 سال تھی لیکن پاکستان نے اس کے بعد کبھی ’دوسرا‘ کے موجد کو دوبارہ ٹیم میں دوبارہ طلب نہیں کیا۔ چلیے، اب ذکر چھڑ گیا ہے تو میں انگلستان کے اسٹورٹ براڈ کی مثال دوں گا جنہیں بھارت کے یووراج سنگھ نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے ایک مقابلے میں چھ گیندوں پر چھ چھکے رسید کیے تھے لیکن اس شرمناک کارکردگی کے باوجود انگلستان نے ان کو باہر نہیں نکالا اور اس کے بعد براڈ نے انگلستان کو کئی مقابلے جتوائے۔ یقیناً اگر وہ پاکستان کی جانب سے کھیلتے تو یووراج کے ہاتھوں ان کا کیریئر اسی دن ختم ہو جاتا۔

بہرحال، ہم ذکر کر رہے تھے پاکستانی سرزمین پر کھیلی گئي اس تاریخی سیریز کا جس کے لاہور میں کھیلے گئے اگلے معرکے میں میزبان پاکستان نے فتح حاصل کر کے سیریز برابر کر لی لیکن راولپنڈی کے فیصلہ کن ٹیسٹ میں بھارت نے اننگز کے مارجن سے ایک اور فتح سمیٹ کر سیریز اپنے نام کر لی۔

سہواگ کی تاریخی اننگز کی جھلکیاں