ہیراتھ انگلستان اور فتح کے درمیان حائل ہو گئے، سری لنکا کی شاندار جیت

1 1,059

انگلستان فتح کی جانب گامزن تھا، لیکن ۔۔۔۔ وہی ہوا جو عالمی نمبر ایک بننے کے بعد سے ’بابائے کرکٹ‘ کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے کہ وہ برصغیر کی کنڈیشنز میں اسپن گیند بازی کے سامنے چاروں شانے چت ہو جاتا ہے، اور اس مرتبہ بھی انگلش بلے بازوں اور فتح کے درمیان ایک اسپنر رنگانا ہیراتھ حائل ہوا، جس نے میچ میں 12 وکٹیں حاصل کر کے سری لنکا کو سیریز میں ناقابل شکست سیریز برتری دلا دی ہے۔

مددگار پچ پر ہیراتھ کی گیندوں اور سری لنکن فیلڈرز کی پھرتی نے انگلستان کو چکرا کر رکھ دیا (تصویر: AFP)
مددگار پچ پر ہیراتھ کی گیندوں اور سری لنکن فیلڈرز کی پھرتی نے انگلستان کو چکرا کر رکھ دیا (تصویر: AFP)

یہ عظیم گیند باز مرلی دھرن کی ریٹائرمنٹ کے بعد سری لنکا کی پہلی فتح ہے۔ رنگانا ہیراتھ نے دونوں اننگز میں 6،6 وکٹیں حاصل کیں اورکپتان مہیلا جے وردھنے کے ساتھ تاریخی فتح کے دوسرے کلیدی محرک رہے۔ جے وردھنے نے پہلی اننگز میں اُس وقت سنچری داغی جب 191 کے مجموعے پر سری لنکا کی7 وکٹیں گر چکی تھیں اور انہوں نے آخری تین وکٹوں کے ساتھ مل کر اسکور میں 127 رنز کا اضافہ کیا اور ٹیم کو میچ میں واپس لائے اور بعد ازاں کچھ ایسی ہی صورتحال سری لنکا کو دوسری اننگز میں بھی پیش آئی جہاں 127 رنز پر اس کی 8 وکٹیں گر چکی تھیں۔ اس نازک صورتحال میں وکٹ کیپر پرسنا جے وردھنے نے 61 رنز کی میچ بچاؤ اننگز کھیلی اور آخری دو کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر 87 قیمتی رنز کا اضافہ کیا جو بعد ازاں فیصلہ کن ثابت ہوئے۔

گال کے تاریخی میدان میں کھیلے گئے ٹیسٹ میں انگلستان اپنی اسپن گیند بازی اور مضبوط ترین بیٹنگ لائن اپ کی بدولت حریف پر بیشتر اوقات غالب رہا لیکن سری لنکا کی دو صلاحیتوں نے اسے میچ میں یادگار کامیابی دلائی، ایک آخری وکٹوں پر رنز بنانا اور دوسرا اچھی گیند بازی پر عمدہ فیلڈنگ۔ انگلستان ان دونوں قابلیتوں سے محروم رہا۔ انگلش فیلڈرز نے پہلی اننگز میں مہیلا جے وردھنے کو چار زندگیاں عطا کیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حریف قائد نے میچ کی صورتحال ہی تبدیل کر کے رکھ دی۔ دوسری جانب دونوں اننگز میں سری لنکا کی آخری دو وکٹوں کا زبردست انداز میں رنز سمیٹنا میچ کا فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہوا۔ آخری دو جوڑیوں نے پہلی اننگز میں 65 اور دوسری میں 87 رنز بنائے۔ علاوہ ازیں دوسری اننگز کے اہم ترین سری لنکن بلے باز پرسنا جے وردھنے کا اسٹورٹ براڈ کی نو-بال پر آؤٹ ہونا بھی انگلستان کی بدقسمتی ثابت ہوا۔

بہرحال، 340 رنز کے ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں صرف جوناتھن ٹراٹ ہی ایسے انگریز بلے باز تھے جنہوں نے سنچری کے ذریعے سری لنکن گیند بازوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن آخر میں انگلش بلے بازوں کی نا اہلی ہدف سے کہیں زیادہ بڑی ثابت ہوئی، جو ہیراتھ کی گیند بازی کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے ۔ علاوہ ازیں آخری روز سری لنکا کی بہترین فیلڈنگ نے بھی فتح میں یکساں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں لاہیرو تھریمانے کا میٹ پرائیر کے سویپ شاٹ پر فارورڈ شارٹ لیگ پر لیا گیا زبردست کیچ بھی شامل تھا جس نے پانچویں وکٹ کی شراکت کا خاتمہ کیا جو انگلستان کو ریکارڈ فتح کی جانب گامزن کیے ہوئے تھے۔ تھریمانے نے پرائیر کے تیز سویپ شاٹ کو پہلے اپنے جسم پر کھایا اور دماغ کو حاضر رکھتے ہوئے گیند کو گرنے نہیں دیا۔ 81 رنز کی اس شراکت کے خاتمے کے بعد یہيں سے انگلستان کی اننگز کے بکھرنے کی ڈرامائی داستان شروع ہوئی، بالکل ویسی ہی جیسی کہ چند ہفتوں قبل پاکستان کے خلاف ابوظہبی میں 145 رنز کے تعاقب میں ہوئی تھی۔ یہاں انگلستان نے محض 31 رنز کے اضافے پر اپنی آخری 6 وکٹیں گنوائیں اور میچ طشتری میں رکھ کر میزبان ٹیم کو پیش کر دیا۔

گال میں کھیلا گیا آخری ٹیسٹ میدان کے منتظمین کے لیے پریشان کن ثابت ہوا تھا کیونکہ آسٹریلیا-سری لنکا معرکے کے بعد پچ کو ناقص قرار دیا گیا تھا اور اگر اس مرتبہ بھی ایسا ہوتا تو گال کو کسی بھی ٹیسٹ مقابلے کی میزبانی سے عرصے کے لیے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا لیکن اِس مرتبہ دونوں ٹیموں کے بلے بازوں نے عام تاثر کے برعکس وکٹ کو اچھا قرار دیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ آخری روز تک وکٹ اسپنرز کے لیے بہت زیادہ مددگار ہو چکی تھی جس کا پورا فائدہ رنگانا ہیراتھ نے اٹھایا۔ انہوں نے گیند کو بلے باز کے دونوں جانب گھمایا بھی اور اُس کی پرواز اور ٹپہ پڑنے کے مقام پر بھی مکمل گرفت رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کیریئر میں نویں مرتبہ پانچ وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہوئے اور کسی ٹیسٹ مقابلے میں 10 وکٹیں حاصل کرنے والے پانچویں سری لنکن گیند باز بھی بنے۔

دوسری جانب طویل سفر کے بعد اپنی ٹیم کے حوصلے بلند کرنے کے لیے بحر ہند کے اِس جزیرے میں پہنچنے والے انگلش تماشائیوں کے لیے یہ ہار بہت حوصلہ شکن تھی، جو آخری روز بڑی امیدوں کے ساتھ میدان میں آئے تھے۔ گو کہ انہیں جوناتھن ٹراٹ کی صبر، تکنیک اور توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیتوں سے مزید اننگز ضرور دیکھنے کو ملی لیکن ان کی عمدہ اننگز بھی انگلستان کو ایک غیر معمولی فتح سے ہمکنار نہ کر سکی۔ ٹراٹ نے 266 گیندوں پر 10 چوکوں کی مدد سے 112 رنز کی صبر آزما اننگز کھیلی۔ لیکن اس پورے سفر میں ایک اینڈ پر بے بسی کی تصویر بنے وکٹوں کو گرتے ہی دیکھتے رہے۔ ان کی نظروں کے سامنے کیون پیٹرسن مڈ وکٹ پر کیچ تھما بیٹھے، این بیل پہلے سے سوچے ہوئے ایک سویپ شاٹ کو کھیلنے کی کوشش میں پویلین سدھارے، سمیت پٹیل وکٹ چھوڑتے ہوئے آف سائیڈ پر کھیلنے کی کوشش میں تلکارتنے دلشان کے ایک زبردست کیچ کا نشانہ بنے، جو ایک لمحے کے لیے ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن کمال ہوشیاری سے انہوں نے زمین پر گرنے سے قبل ہی اسے دوبارہ تھام لیا، اور اس کے بعد گریم سوان سویپ شاٹ کا ایک اور شکار بنے۔

جوناتھن ٹراٹ کے کیریئر کی اس ساتویں سنچری نے چائے کے وقفے تک انگلستان کی توقعات کو تو برقرار رکھا لیکن ان کے لیگ سلپ پر کیچ ہوتے ہی تمام تر امیدوں پر پانی پھر گیا۔ دلشان نے ان کا ایک ناقابل یقین کیچ تھام کر انگلستان کا آخری چراغ بھی گل کر دیا۔ ان کے بعد آنے والے تین بلے باز اسکور میں محض 10 رنز کا اضافہ کر سکے اور 264 رنز پر پوری ٹیم آؤٹ ہو گئی۔ یوں پہلا معرکہ 75 رنز سے سری لنکا کے نام رہا۔

یہ عالمی نمبر ایک کی ٹیسٹ مقابلوں میں مسلسل چوتھی شکست ہے۔ انہیں اس سے قبل پاکستان کے خلاف سیریز کے تمام تین ٹیسٹ میچز میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا اور اب سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کا پہلا معرکہ ہارنے کے بعد اب ایک اور سیریز شکست اس کے سامنے منہ کھولے کھڑی ہے۔ کیونکہ اس مقام سے وہ جیت تو نہیں سکتا۔ یوں عالمی نمبر ایک بننے کے بعد سے اب تک انگلستان کسی بھی سیریز تو کجا میچ میں بھی فتح سے محروم ہے۔

جب تک جوناتھن ٹراٹ کریز پر موجود تھے، انگلستان کی فتح کی امید باقی تھی لیکن ان کے لوٹتے ہی میچ کا فیصلہ چند لمحوں میں ہو گیا (تصویر: Getty Images)
جب تک جوناتھن ٹراٹ کریز پر موجود تھے، انگلستان کی فتح کی امید باقی تھی لیکن ان کے لوٹتے ہی میچ کا فیصلہ چند لمحوں میں ہو گیا (تصویر: Getty Images)

قبل ازیں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کافیصلہ کیا تو توقعات کے برعکس تیز گیند باز ہی اُس کا کام تمام کرتے دکھائی دیے۔ اینڈرسن نے دن کے تیسرے ہی اوور میں لاہیرو تھریمانے اور کمار سنگاکارا کی وکٹیں حاصل کر کے تہلکہ مچا دیا۔ رہی سہی کسر اگلے اوور میں اسٹورٹ براڈ کے ہاتھوں تلکارتنے دلشان کے آؤٹ ہونے نے پوری کر دی۔ محض 15 رنزپر 3 وکٹیں گر جانے کے بعد توجہ کا تمام تر مرکز کپتان مہیلا جے وردھنے تھے اور انہوں نے خود سے وابستہ توقعات کو پورا بھی کر دکھایا۔ گو کہ دوسرے اینڈ سے وکٹیں گرتی رہیں لیکن مہیلا کے حوصلوں کو پست کرنا انگلش گیند بازوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہوں نے رنگانا ہیراتھ کے ساتھ آٹھویں وکٹ پر 62 رنز کا اضافہ کیا لیکن بدقسمتی سے اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر پائے اور 180 رنز پر اینڈرسن کی پانچویں وکٹ بن گئے۔ اس کے ساتھ ہی 318 رنز پر سری لنکن اننگز کا بھی خاتمہ ہو گیا جو اننگز کی ابتدائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بہت ہی شاندار اسکور تھا۔مہیلا جے وردھنے کیریئر کی 30 ویں سنچری 200 گیندوں پر مکمل کی اور 315 گیندوں پر 22 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے 180 رنز بنانے کے بعد سب سے آخر میں آؤٹ ہوئے۔

انگلستان کی جانب سے جمی اینڈرسن نے سب سے زیادہ 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں کیریئر کا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے سمیت پٹیل نے اور ایک اسٹورٹ براڈ نے حاصل کی۔

پہلی اننگز میں باؤلنگ کے دوران حوصلے ہارنے کے بعد اب انگلش بلے بازوں کا امتحان تھا، اور گزشتہ کارکردگی کو دہراتے ہوئے وہ اس مرتبہ بھی مکمل طور پر ناکام ہوئے۔ رنگارنا ہیراتھ اور سورج رندیو کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور سوائے این بیل کے 52 رنز کے کسی بلے باز نے قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سرفہرست پانچ بلے باز محض 72 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے جن میں ایلسٹر کک کا صفر پر آؤٹ ہونا بھی شامل تھا اور بالآخر پوری اننگز 193 رنز پر تمام ہوئی۔

ہیراتھ نے 74 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو وکٹیں سورج رندیو اور ایک، ایک وکٹ ویلیگیدرا اور لکمل کو ملی۔

جرات مندانہ بلے بازی اور پھر عمدہ گیند بازی نے سری لنکا کو میچ میں بالادست پوزیشن پر پہنچا دیا جسے 125 رنز کی برتری حاصل ہو چکی تھی لیکن دوسری اننگز میں جہاں اسے اپنا شکنجہ مزید کسنے کی ضرورت تھی، اُس کے ابتدائی بلے باز ایک مرتبہ پھر مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ دلشان صفر پر آؤٹ ہوئے اور 14 کے مجموعے تک پہنچتے ہی سری لنکا کو بہت ہی کراری ضرب لگی، پہلی اننگز کے ہیرو مہیلا جے وردھنے صرف 5 رنز بنا کر گریم سوان کا دوسرا شکار بنے اور سری لنکا کی گرنے والی وکٹوں کی تعداد تین ہو گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ اسپنرز کے لیے مددگار ہوتی ہوئی پچ پر گریم سوان چھا گئے اور انہوں نے اپنے ساتھی مونٹی پنیسر کے ساتھ مل کر مڈل آرڈر میں تھیلان سماراویرا (36 رنز) اور دنیش چندیمال (31 رنز) کی معمولی مزاحمت کا بھی خاتمہ کیا تو لگتا تھا کہ اب مقابلہ برابری کی بنیاد پر آ گیا ہے لیکن وکٹ کیپر پرسنا جے وردھنے ڈٹ گئے جنہوں نے 3 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے 61 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی اور انہی کی اس اننگز کی بدولت سری لنکا نے آخری تین وکٹوں پر 99 رنز کا اضافہ کر ڈالا اور میچ کو انگلستان کی گرفت سے نکال لیا۔ آخری دونوں بلے بازوں چناکا ویلیگیدرا اور سورنگا لکمل نے 13، 13 رنز بنا کر ان کا بھرپور ساتھ دیا اور سری لنکا کی دوسری اننگز کا اختتام 214 رنز پر ہوا۔

گریم سوان نے 82 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں مونٹی پنیسر کو ملیں اور ایک کھلاڑی کو اسٹورٹ براڈ نے آؤٹ کیا۔

340 رنز کا ہدف انگلستان کے بلے بازوں کی ’اوقات‘ سے کہیں زیادہ ثابت ہوا اور بالآخر پوری ٹیم 264 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور سری لنکا نے عرصہ دراز کے بعد کوئی ٹیسٹ میچ جیت لیا۔

رنگانا ہیراتھ کو 12 وکٹیں حاصل کرنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔