[آج کا دن] بنگلورِ ثانی، پاکستان کی روایتی حریف پر ایک اور تاریخی فتح
جنوبی ہند کے شہر بنگلور سے پاکستان کی بہت خوشگوار یادیں وابستہ ہیں، کیونکہ یہی وہ میدان ہے جہاں پاکستان نے 1987ء میں بھارت کو شکست دے کر بھارتی سرزمین پر پہلی بار کوئی ٹیسٹ سیریز جیتی تھی۔ اس فتح کو عالمی کپ 1992ء کی فتح کے ساتھ عمران خان کی زندگی کا دوسرا یادگار ترین موقع قرار دیا جا سکتا ہے اور آج سے ٹھیک 7 سال قبل یعنی 28 مارچ 2005ء کو پاکستان نے اسی میدان پر ایک اور تاریخی فتح حاصل کی اور اس مرتبہ قائد تھے انضمام الحق۔
گو کہ اس مرتبہ پاکستان پہلے کی طرح سیریز نہیں جیت پایا تاہم برابر کرنے میں ضرور کامیاب ہوا، لیکن یہ برابری بھی اُس فتح سے کہیں زیادہ اہم تھی کیونکہ اِس سیریز میں دونوں ٹیموں میں بہت زیادہ فرق تھا۔ کاغذ پر دیکھا جائے تو بھارت اپنی مکمل قوت کے ساتھ میدان میں تھا اور اسے سیریز میں 1-0 کی ناقابل شکست برتری بھی حاصل تھی۔ میزبان ٹیم کو اپنے پانچوں ”مہان“ کھلاڑیوں وریندر سہواگ، راہول ڈریوڈ، سچن ٹنڈولکر، وی وی ایس لکشمن اور سارو گانگلی کی خدمات حاصل تھیں جبکہ دوسری جانب بھارت کا دورہ کرنے والا یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا کمزور ترین دستہ تھا، جس میں صرف تین کھلاڑی ایسے تھے جنہیں ’تجربہ کار‘ قرار دیا جا سکتا تھا، ایک کپتان انضمام الحق، دوسرے یونس خان اور تیسرے محمد یوسف (جو اس وقت یوسف یوحنا تھے)۔ بلے بازوں میں اوپنر کی حیثيت سے یاسر حمید اور شاہد آفریدی کو میدان میں اتارا گیاجبکہ مڈل آرڈر میں تینوں مضبوط بلے بازوں کے بعد عاصم کمال، عبد الرزاق اور کامران اکمل تھے۔ باؤلنگ میں تو حال اور بھی برا تھا، اسٹرائیک باؤلر محمد سمیع تھے اور ان کے ساتھ گیند بازی کا آغاز کرنے والے تھے عبد الرزاق۔ اسپن مثلث دانش کنیریا، ارشد خان اور شاہد آفریدی پر مشتمل تھی۔ بظاہر اتنی ’بے ضرر‘ نظر آنے والی باؤلنگ کے ساتھ بیٹنگ کی دنیا کی ’دیوارِ ہند‘ کو گرانا، ناممکنات میں سے نہیں تو معجزات میں سے ضرور تھا اور ان کھلاڑیوں نے یہ معجزہ کر دکھایا۔
کس کو یقین آیا ہوگا کہ پاکستان نے اس ’ہومیوپیتھک‘ باؤلنگ اٹیک کے ساتھ بھارت کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر دیا، لیکن چناسوامی اسٹیڈیم کے تماشائیوں اور ٹی وی پر دیکھنے والے لاکھوں کروڑوں شائقین نے دیکھا کہ پاکستان نے محض دو سیشن میں کس طرح بھارتی سورماؤں کو چت کیا۔ 383 رز کے ہدف کے تعاقب میں آخری روز کھانے کے وقفے تک بھارت کی 103 پر صرف ایک وکٹ گری تھی۔ پھر پاکستان نے گمبھیر کی وکٹ سمیٹتے ہی میچ میں واپسی کا آغاز کر دیا، جب ارشد خان نے ’دیوار‘ میں چھید کیا تو گویا پاکستان یکدم مقابلے پر حاوی آ گیا، جی ہاں! ارشد نے اپنے کیریئر کی قیمتی ترین وکٹ راہول ڈریوڈ کی صورت میں حاصل کی۔ جس کے بعد شاہد آفریدی دو فیصلہ کن ضربیں لگائیں پہلے لکشمن کو اپنی مشہور زمانہ تیز گیند پر وکٹوں کے سامنے جا لیا اور پھر حریف قائد سارو گانگلی کی وکٹیں بکھیر کر آدھی بھارتی ٹیم کو واپس خیمے میں پہنچا دیا۔ گانگلی آف اسٹمپ سے کہیں دور جا کر پڑنے والی ایک گیند کو کھیلنے کی کوشش میں گئے تھے لیکن وہ بہت تیزی سے کٹ کر بلے اور پیڈ کے درمیان ہوتی ہوئی ناقابل یقین طور پر آف اسٹمپ اڑا گئی۔ بھارتی قائد اس قدر حواس باختہ ہو گئے کہ انہیں کافی دیر تک یقین ہی نہیں آیا کہ وہ آؤٹ ہو گئے ہیں اور کلین بولڈ ہونے کے باوجود وہ امپائر سے پوچھتے رہے کہ کیا وہ آؤٹ ہیں؟ جنہوں نے انگلی فضا میں بلند کرتے ہوئے انہیں میدان بدر ہونے کا حکم دیا۔
135 رنز پر 5 وکٹیں گر جانے کے بعد اب تمام تر انحصار عظیم سچن تنڈولکر پر تھا، جو ’بھارتی ترکش کا آخری تیر‘ تھے، چائے کے وقفے تک بھارت کو لازماً میچ بچانے کے لیے کچھ کر دکھانا تھا اور وقفے سے قبل محمد سمیع کی گیند پر سچن کو ملنے والی زندگی نے اسے کافی امیدیں بھی بخشیں۔ لیکن یہ اطمینان زیادہ دیر قائم نہ رہا اور کھانے کے وقفے کے فوراً ہی محمد سمیع نے ایک اینڈ سے دنیش کارتک کو اپنی بجلی کی کوند کی طرح لپکتی گیند پر بولڈ کیا تو شاہد آفریدی نے دوسری طرف سے سچن تنڈولکر کو ٹھکانے لگا کر فیصلہ کن ضرب لگادی۔ یہ سیریز میں تیسرا موقع تھا کہ تنڈولکر آفریدی کی گیند پر آؤٹ ہوئے اور اس وکٹ کے حاصل کرنے پر شاہد کی مسرت کا کیا عالم ہوگا اس کا اندازہ وکٹ لیتے ہی ان کی دوڑ سے لگایا جا سکتا تھا، جب وہ سب سے آگے اور پوری ٹیم اُن کے پیچھے تھی۔
اب بھارت کے لیے سخت پریشانی کے لمحات شروع ہو گئے تھے۔ باقی بچ رہنے والا تقریباً پورا ایک سیشن کون نکالتا؟ انیل کمبلے نے پوری جان لڑا دی اور عرفان پٹھان نے اُن کا ساتھ دینے کی تمام تر کوشش کی لیکن عین اس وقت جب مقابلہ پاکستان کے لیے پریشان کن مرحلے میں داخل ہونے والا تھا، گیند عرفان پٹھان کے دفاعی اسٹروک پر اُن کے جوتے سے لگ کر اٹھی اور سیدھا سلی پوائنٹ پر یوسف یوحنا کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ اس طرح کی غیر معمولی وکٹ حاصل ہونے کے بعد دانش کنیریا نے یکے بعد دیگرے ہربھجن سنگھ اور لکشمی پتھی بالاجی کو آؤٹ کر کے بھارتی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ بھارت کو میچ بچانے کے لیے صرف 6 مزید اوورز کھیلنے کی ضرورت تھی لیکن پاکستان نے انہیں بروقت جا لیا اور 168 رنز سے ایک یادگار فتح حاصل کر کے سیریز برابر کر ڈالی۔
یونس خان اور انضمام کے لیے یہ میچ بلاشبہ کیریئر کا یادگار ترین لمحہ ہوگا، جن کی شاندار بلے بازی نے پاکستان پہلے روز ہی سے میچ میں بالادست پوزیشن پر پہنچا دیا تھا۔ انضمام کے لیے تو یہ بہت ہی یادگار جیت تھی کیونکہ وہ اپنے کیریئر کا 100 واں ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے جس میں انہوں نے نہ صرف سنچری بنائی بلکہ بعد ازاں فتح سمیٹ کر روایتی حریف کے خلاف سیریز بھی برابر کی۔ ٹاس جیت کر پہلے روز ابتدا ہی میں دونوں اوپنرز سے محروم ہونے کے بعد یونس اور انضمام کے درمیان 324 رنز کی شاندار رفاقت قائم ہوئی۔
یونس خان نے 267 رنز کی ایسی ایسی باری کھیلی جو اُنہیں تاعمر یاد رہے گی اور جب تک پاک بھارت کرکٹ کا ذکر ہوتا رہے گا، یونس خان کی اس اننگز کی داستان دہرائی جاتی رہے گی۔ یہ ہندوستانی سرزمین پر کسی بھی پاکستانی بلے باز کی پہلی ڈبل سنچری تھی۔ دوسری جانب انضمام الحق بدقسمتی سے اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر سکے اور 184 رنز پر آؤٹ ہوئے لیکن یہ ان دونوں کی شراکت داری ہی تھی جس کی بدولت اتنی ’ماٹھی‘ بیٹنگ لائن اپ کے باوجود پاکستان نے پہلی اننگز میں 570 کا عظیم مجموعہ اکٹھا کیا۔ بھارت کی جانب سے ہربھجن سنگھ نے سب سے زیادہ 6 وکٹیں حاصل کیں لیکن 152 رنز دے کر ۔ سب سے مایوس کن گیند بازی انیل کمبلے نے کی جو سب سے زیادہ 159 رنز دے کر بھی وکٹ لینے سے محروم رہے۔
جواب میں بھارت نے اپنی پوری توانائیاں خرچ کر ڈالیں اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن وریندر سہواگ کی ڈبل سنچری کے باوجود وہ پاکستان پر برتری نہ پا سکا اور 449 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ پاکستان 121 رنز کی حوصلہ افزا برتری ملی۔ ویسے جب تک سہواگ کریز پر موجود تھے ہندوستان بہت مضبوط پوزیشن میں تھا لیکن اُن کے واپس لوٹتے ہی وکٹوں کی جھڑی لگ گئی۔ 337 رنز پر تین کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ بہترین مقام پر موجود میزبان ٹیم 396 تک اپنی 9 وکٹیں کھو بیٹھی۔ اگر آخری وکٹ پر لکشمن انیل کمبلے کے ساتھ 53 رنز کا اضافہ نہ کرتے تو پاکستان کی برتری پونے دو سو رنز کی ہو جاتی اور بھارت کہیں زیادہ گمبھیر صورتحال سے دوچار ہو جاتا۔
بہرحال، 121 رنز کی برتری کے ساتھ پاکستان نے بہت ہی بھرپور انداز میں اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا، کیونکہ وقت کم تھا اور پاکستان سیریز ہارنا نہیں چاہتا تھا اس لیےمقابلے کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے پاکستان نے تیز کھیلنے کی حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے شاہد آفریدی کو خصوصی ہدایات دے کر میدان میں بھیجا گیا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، میدان میں اترتے ہی بھارتی گیند بازوں کی جم کر پٹائی کر ڈالی۔ ان کی محض 26 گیندوں پر نصف سنچری نے بھارتی گیند بازوں کے رہے سہے حوصلے بھی پست کر دیے۔ شاہد نے صرف 34 گیندیں کھیلیں اور 2 چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 58 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی دوسری تیز ترین نصف سنچری تھی۔ شاہد کی اس اننگز کی بدولت پاکستان کو محض 13 اوورز میں 91 رنز کی زبردست اوپننگ شراکت داری ملی جس کے بعد یاسر حمید نے یونس خان کے ساتھ مل کر مزید 92 رنز کا اضافہ کیا اور ایک انتہائی محفوظ مقام پر پہنچنے کے بعد پاکستان نے 261 رنز 2 کھلاڑی آؤٹ اپنی دوسری اننگز کے خاتمے کا اعلان کیا اور بھارت کو فتح کے لیے 383 رنز کا بھاری ہدف دیا جبکہ ایک دن کا کھیل ابھی باقی تھا۔ یونس خان 84 اور انضمام الحق 31 رنز پر ناقابل شکست رہے۔ ان دونوں کی اننگز کی خاص بات بھی تیز رفتاری تھی۔ یونس نے محض 98 اور انضمام نے 32 گیندیں کھیلیں۔ بھارتی گیند بازوں کا حال ملاحظہ کیجیے، عرفان پٹھان کے 5 اوورز میں 45 اور لکشمی پتھی بالاجی کے 3 اوورز میں 26 رنز لوٹے گئے جبکہ دیگر گیند باز بھی کم مہنگے ثابت نہیں ہوئے۔ ہربھجن سنگھ 6 اوورز میں 35 رنز دے کر نامراد لوٹے جبکہ انیل کمبلے کے 21 اوورز میں 88 رنز لوٹے گئے۔
پاکستانی کپتان انضمام الحق نے اننگز ڈکلیئر کر کے بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا کیونکہ بھارتی کی طویل بیٹنگ لائن اپ خصوصاً سہواگ کی موجودگی میں ایک روز میں 383 رنز کا ہدف ناقابل عبور بھی نہ تھا، پھر اوپر سے پاکستان کی باؤلنگ لائن بھی اتنی سخت جان نہیں تھی۔ پھر بھارت نے ابتدا ہی سے جس طرح کے کھیل کا مظاہرہ کیا اس نے میزبان ٹیم کے عزائم بھی ظاہر کر دیے کہ وہ برابری کی جانب نہیں بلکہ فتح کی طرف پیشقدمی کر رہی ہے۔ محض 23 اوورز میں 87 رنز کا آغاز میسر آنا اس امر کا واضح اعلان تھا لیکن ۔۔۔۔۔۔ پھر پہلی اننگز ہی کی طرح یکایک پاکستانی گیند باز کھیل پر چھا گئے، جس کا احوال اوپر درج کیا جا چکا ہے۔
اس تاریخی فتح سے پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں اک نیا کھلاڑی ’بنگلور کا ہیرو‘ کے نام سے موسوم ہوا، جس کا نام یونس خان ہے، جنہیں میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انضمام الحق کی ولولہ انگیز قیادت اور پوری ٹیم کی جرات مندی تھی جس نے پاکستان کو ناممکن کو ممکن بنانے کا حوصلہ بخشا۔ انضمام کے 100 ویں ٹیسٹ میں سنچری کا انوکھا اعزاز حاصل کرنے کے علاوہ شاہد آفریدی نے میں 26 گیندوں پر 50 رنز بنا کر تیز ترین نصف سنچری کا قومی ریکارڈ قائم کیا۔ وہ بدقسمتی سے محض دو گیندوں کے فاصلے سے عالمی ریکارڈ توڑنے سے محروم رہ گئے جو اُسی ماہ یعنی مارچ 2005ء میں جنوبی افریقہ کے ژاک کیلس نے زمبابوے کے خلاف بنایا تھا۔ علاوہ ازیں اسی میچ میں سہواگ نے اپنے 3000 ٹیسٹ رنز بھی مکمل کیے اور اس سنگ میل کو سب سے کم عرصے میں عبور کرنے والے بھارتی بلے باز بنے۔
واضح رہے کہ یہ وہی سیریز تھی جس کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے کامران اکمل اور عبد الرزاق کی شاندار بلے بازی کی بدولت سامنے نظر آنے والی شکست کا منہ پھیر دیا تھا اور ان کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان موہالی ٹیسٹ برابر کرنے میں کامیاب ہوا۔ کولکتہ میں کھیلے گئے دوسرے مقابلے میں بھاری مارجن سے شکست کے بعد بنگلور کا یہ یادگار ٹیسٹ سیریز کو برابر کر گیا۔
آخری روز شاہد خان آفریدی کی حاصل کردہ قیمتی وکٹیں، جنہوں نے میچ کا پانسہ پلٹ دیا
https://www.youtube.com/watch?v=BobDjZcxim8
تاریخی مقابلے کا اسکور کارڈ
بھارت بمقابلہ پاکستان
تیسرا ٹیسٹ
24 تا 28 مارچ 2005ء
ایم چناسوامی اسٹیڈیم، بنگلور، بھارت
نتیجہ: پاکستان 168 رنز سے فتح یاب
میچ کے بہترین کھلاڑی: یونس خان
سیریز کے بہترین کھلاڑی: وریندر سہواگ
پہلی اننگز | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
یاسر حمید | ک کارتھک ب عرفان | 6 | 11 | 1 | 0 |
شاہد آفریدی | ک ڈریوڈ ب بالاجی | 0 | 1 | 0 | 0 |
یونس خان | ک عرفان ب ہربھجن | 267 | 504 | 32 | 1 |
انضمام الحق | ایل بی ڈبلیو ب بالاجی | 184 | 264 | 25 | 0 |
یوسف یوحنا | ک کارتھک ب ہربھجن | 37 | 57 | 5 | 0 |
عاصم کمال | ک گانگلی ب ہربھجن | 4 | 25 | 0 | 0 |
عبد الرزاق | ک و ب ہربھجن | 5 | 37 | 0 | 0 |
کامران اکمل | ب ہربھجن | 28 | 41 | 4 | 0 |
محمد سمیع | رن آؤٹ | 17 | 64 | 0 | 0 |
ارشد خان | ناٹ آؤٹ | 1 | 6 | 0 | 0 |
دانش کنیریا | ک لکشمن ب ہربھجن | 0 | 1 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 8، ل ب 5، و 4، ن ب 4 | 21 | |||
مجموعہ | 167.5 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 570 |
بھارت (گیند بازی) | اوور | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
عرفان پٹھان | 34 | 4 | 105 | 1 |
لکشمی پتھی بالاجی | 29 | 4 | 114 | 2 |
انیل کمبلے | 46 | 8 | 159 | 0 |
ہربھجن سنگھ | 51.5 | 9 | 152 | 6 |
سچن تنڈولکر | 3 | 0 | 14 | 0 |
سارو گانگلی | 4 | 0 | 13 | 0 |
پہلی اننگز | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
گوتم گمبھیر | ک یونس ب سمیع | 24 | 68 | 3 | 0 |
وریندر سہواگ | ک و ب دانش | 201 | 262 | 28 | 2 |
راہول ڈریوڈ | ایل بی ڈبلیو ب دانش | 22 | 53 | 2 | 0 |
سچن تنڈولکر | ک یونس ب آفریدی | 41 | 71 | 7 | 0 |
وی وی ایس لکشمن | ناٹ آؤٹ | 79 | 183 | 11 | 0 |
سارو گانگلی | اسٹمپ اکمل ب دانش | 1 | 4 | 0 | 0 |
دنیش کارتک | ک عاصم ب سمیع | 10 | 37 | 1 | 0 |
عرفان پٹھان | ک یوسف ب سمیع | 5 | 27 | 0 | 0 |
ہربھجن سنگھ | ک عبد الرزاق ب دانش | 1 | 4 | 0 | 0 |
لکشمی پتھی بالاجی | ک اکمل ب دانش | 2 | 16 | 0 | 0 |
انیل کمبلے | ب آفریدی | 22 | 64 | 3 | 0 |
فاضل رنز | ب 9، ل ب 13، و 1، ن ب 18 | 41 | |||
مجموعہ | 128.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 449 |
پاکستان (گیند بازی) | اوور | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
محمد سمیع | 34 | 5 | 106 | 3 |
عبد الرزاق | 17 | 0 | 77 | 0 |
دانش کنیریا | 39 | 7 | 127 | 5 |
ارشد خان | 28 | 3 | 87 | 0 |
شاہد آفریدی | 10.4 | 3 | 30 | 2 |
دوسری اننگز | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
یاسر حمید | ایل بی ڈبلیو ب کمبلے | 76 | 138 | 7 | 1 |
شاہد آفریدی | اسٹمپ کارتک ب تنڈولکر | 58 | 34 | 8 | 2 |
یونس خان | ناٹ آؤٹ | 84 | 98 | 10 | 0 |
انضمام الحق | ناٹ آؤٹ | 31 | 32 | 3 | 0 |
فاضل رنز | ب 4، ل ب 1، و 5، ن ب 2 | 16 | |||
مجموعہ | 50 اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر | 261 |
بھارت (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
عرفان پٹھان | 5 | 0 | 45 | 0 |
لکشمی پتھی بالاجی | 3 | 0 | 26 | 0 |
انیل کمبلے | 21 | 1 | 88 | 1 |
سچن تنڈولکر | 15 | 1 | 62 | 1 |
ہربھجن سنگھ | 6 | 0 | 35 | 0 |
دوسری اننگز (ہدف: 383 رنز) | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
گوتم گمبھیر | ایل بی ڈبلیو ب سمیع | 52 | 124 | 7 | 0 |
وریندر سہواگ | رن آؤٹ | 38 | 53 | 6 | 0 |
راہول ڈریوڈ | ک یونس ب ارشد | 16 | 64 | 2 | 0 |
سچن تنڈولکر | ک عاصم ب شاہد | 16 | 98 | 2 | 0 |
وی وی ایس لکشمن | ایل بی ڈبلیو ب شاہد | 5 | 29 | 1 | 0 |
سارو گانگلی | ب شاہد | 2 | 14 | 0 | 0 |
دنیش کارتک | ب سمیع | 9 | 44 | 2 | 0 |
انیل کمبلے | ناٹ آؤٹ | 37 | 52 | 7 | 0 |
عرفان پٹھان | ک یوسف ب ارشد | 0 | 29 | 0 | 0 |
ہربھجن سنگھ | ک یونس ب دانش | 8 | 22 | 1 | 0 |
لکشمی پتھی بالاجی | ایل بی ڈبلیو ب دانش | 0 | 16 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 8، ل ب 8، و 10، ن ب 5 | 31 | |||
مجموعہ | 90 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 214 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
محمد سمیع | 21 | 5 | 84 | 2 |
عبد الرزاق | 13 | 3 | 34 | 0 |
دانش کنیریا | 25 | 11 | 46 | 2 |
شاہد آفریدی | 17 | 7 | 13 | 3 |
ارشد خان | 14 | 8 | 21 | 2 |