سوان اور پیٹرسن نے انگلستان کی نمبر ایک پوزیشن بچا لی، سیریز برابر
کولمبو ٹیسٹ کے آخری روز جب انگلستان کو محض 94 رنز کا ہدف ملا تو اس کے بلے بازوں کے ذہن میں ضرور ابوظہبی کی یادیں گردش کر رہی ہوں گی جہاں صرف 145 رنز کے تعاقب میں وہ 72 پر ڈھیر ہو گئے تھے اور عالمی درجہ بندی میں ان کی سرفہرست پوزیشن کو پہلا داغ لگا تھا لیکن یہاں کولمبو میں ایسا کچھ نہیں ہوا، کیونکہ انگلستان کو پاکستان جیسے گیند بازوں کا سامنا نہیں تھا، یوں اس نے ابتدا ہی سے مقابلے پر جو گرفت حاصل کی اسے آخر تک برقرار رکھا اور با آسانی 8 وکٹوں سے ٹیسٹ جیت کر نہ صرف سیریز 1-1 سے برابر کر ڈالی بلکہ نمبر ایک پوزیشن بھی برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
اس شاندار کامیابی کے معمار تھے کیون پیٹرسن اور گریم سوان۔ اول الذکر نے پہلی اننگز میں 165 گیندوں پر 151 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر انگلستان کو 185 رنز کی زبردست برتری دلائی اور آخر الذکر نے دوسری اننگز میں 6 سری لنکن بلے بازوں کی وکٹیں حاصل کر کے انہیں صرف 94 رنز کا ہدف دینے دیا، جسے انگلستان نے با آسانی حاصل کر کے مقابلہ جیت کر ایشیائی سرزمین پر مسلسل ہار کا سلسلہ توڑ دیا۔ انگلستان نے آخری مرتبہ 2001ء میں ناصر حسین کی زیر قیادت سری لنکا کے خلاف کوئی ٹیسٹ جیتا تھا اور اس کے بعد سے وہ اس 'شرف' سے محروم تھا۔
عظیم اسپنر مرلی دھرن کی ریٹائرمنٹ کی بعد سے اب تک ہونے والی 8 میں سے کوئی ایک سیریز بھی سری لنکا نہیں جیت پایا جبکہ اس سے قبل مرلی کی موجودگی میں کھیلی گئی آخری 11 میں سے 7 سیریز اس نے جیتی تھیں۔ دوسری جانب یہ اپنے ہوم گراؤنڈ پر سری لنکا کی آخری 4 میں سے تیسری سیریز ہے جو برابری کی بنیاد پر ختم ہوئی ہے جبکہ ایک سیریز وہ گزشتہ سال آسٹریلیا سے ہارا بھی ہے۔
گو کہ 94 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلستان کو پہلے ہی اوور میں اپنے کپتان اینڈریو اسٹراس کو کھونا پڑا اور بعد ازاں جوناتھن ٹراٹ بھی محض 5 رنز بنا کر لوٹ گئے لیکن ایلسٹر کک اور کیون پیٹرسن نے تیسری وکٹ پر 66 رنز جوڑ کر 'ابوظہبی کے بھوت' کو دفن کر دیا۔ کک 49 جبکہ پیٹرسن محض 28 گیندوں پر 42 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ پیٹرسن کی اننگز میں 2 چھکے اور 4 چوکے شامل تھے۔
قبل ازیں سری لنکا نے میچ کے آخری روز کا آغاز بہت ہی نازک پوزیشن میں کیا کیونکہ اس کی برتری محض 33 رنز کی تھی اور چوتھے روز کے آخری لمحات میں سوان کے پے در پے حملوں نے اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ گو کہ کپتان مہیلا جے وردھنے 55 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے لیکن صورتحال ایسی تھی کہ ان کی کوئی معجزاتی کارکردگی یا پھر بارش ہی سری لنکا کو بچا سکتی تھی لیکن دونوں میں کچھ بھی وقوع پذیر نہ ہوا اور آخری دن سب سے پہلی وکٹ مہیلا ہی کی گری جب 238 کے مجموعی اسکور پر وہ 64 رنز بناکر سوان کا دن کا پہلا شکار بنے۔ اگلے ہی اوور میں سوان نے پرسنا جے وردھنے کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اب میچ بچنے کی امیدیں تقریباً ختم ہو چکی تھیں کیونکہ میدان میں صرف اینجلو میتھیوز ہی بچے تھے اور ان کا بہت زیادہ دیر تک مزاحمت کرنا ممکن نہ تھا۔ بالآخر 278 کے مجموعے پر ان کے آؤٹ ہوتے ہی سری لنکا کی دوسری اننگز محض 93 رنز کی برتری کے ساتھ تمام ہوئی اور انگلستان کو سیریز برابر کرنے کے لیے صرف 94 رنز کا ہدف ملا۔
پہلے روز سیریز میں ناقابل شکست برتری کے بعد سری لنکا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو آغاز گزشتہ مقابلے کا 'ری پلے' ثابت ہوا۔ جمی اینڈرسن کے تہرے حملے نے اسے بے حال کر دیا۔ جمی نے تلکارتنے دلشان، کمار سنگاکارا اور لاہیرو تھریمانے کی قیمتی وکٹیں اپنے پہلے ہی اسپیل میں ٹھکانے لگا دیں۔ سنگاکارا کی بدترین کارکردگی کا سلسلہ جاری رہا جو ایک مرتبہ پھر صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ محض 30 رنز پر تین اہم کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد ذمہ داری ایک مرتبہ پھر مہیلا جے وردھنے کے کاندھوں پر آ گئی جنہوں نے ایک مرتبہ پھر اسے بخوبی نبھایا اور ایک اور شاندار سنچری داغ کر سری لنکا کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو بچایا۔ اس مہم میں ان کا بھرپور ساتھ دیا تھیلان سماراویرا نے۔ دونوں نے چوتھی وکٹ پر 124 رنز کی رفاقت قائم کی۔ سمارا ویرا 54 رنز بنا کر ٹم بریسنن کی پہلی وکٹ بنے۔ 31 ویں سنچری بنانے کے بعد جب مہیلا آؤٹ ہوئے تو اسکور 216 رنز تھا اور سری لنکا اپنی آخری پانچ وکٹوں کے ذریعے ایک اچھا مجموعہ اکٹھا کر سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے اینجلو میتھیوز کے علاوہ کوئی بلے باز کامیاب نہ ہو سکا اور آدھی ٹیم اسکور میں محض 59 رنز کا اضافہ کر پائی۔ میتھیوز 57 رنز بنا کر دوسری اہم ترین اننگز کھیلی لیکن سری لنکا کی پہلی اننگز کا خاتمہ دوسرے روز کھانے کے وقفے سے قبل ہی 275 رنز پر ہو گیا۔
جواب میں انگلستان کی کارروائی بہت ہی شاندار تھی۔ اوپنرز اینڈریو اسٹراس اور ایلسٹر کک نے 122 رنز کی زبردست ابتدائی شراکت داری قائم کی۔ اسٹراس، جو کافی عرصے سے بہت بری فارم سے گزر رہے تھے، اس مرتبہ کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کیریئر کی 27 ویں نصف سنچری بنانے کے بعد 61 پر آؤٹ ہوئے۔ ان کے بعد دوسرے روز کے اختتام تک انگلستان کی مزید کوئی وکٹ نہیں گری اور جب دن مکمل ہوا تو ایلسٹر کک 77 اور جوناتھن ٹراٹ 15 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے اور اسکور محض ایک وکٹ کے نقصان پر 154 رنز تھا۔ سری لنکا کے لیے یہ کافی پریشان کن لمحات تھے لیکن ابھی انہوں نے تیسرے روز بہت ہی گمبھیر صورتحال کا سامنا کرنا تھا، جی ہاں کیون پیٹرسن کی تباہ کن سنچری کا۔ گو کہ ایلسٹر کک بدقسمتی سے کیریئر کی 20 ویں سنچری مکمل نہ کر سکے اور 94 رنز پر دلشان کی دوسری وکٹ بنے لیکن یہ ان کے بعد آنے والے کے پی تھے جنہوں نے میچ کو مکمل طور پر انگلستان کے پلڑے میں جھکا دیا۔ انہوں نے محض 165 گیندوں پر 6 چھکوں اور 16 چوکوں کی مدد سے 151 رنز کی طوفانی اننگز کھیلی۔ جوناتھن ٹراٹ 64 رنز بنانے میں کامیاب رہے اور سرفہرست چاروں بلے بازوں کی زبردست کارکردگی کی بدولت انگلستان پہلی اننگز میں 460 رنز بنانے میں کامیاب ہوا اور سری لنکا پر 185 رنز کی بڑی برتری حاصل کر گیا۔ سری لنکا نے تیسرے روز کے بالکل اختتامی لمحات میں اپنی دوسری اننگز شروع کی اور ایک اینڈ کو محفوظ رکھنے کے لیے دھمیکا پرساد کو نائٹ واچ مین کی حیثیت سے بھیجا اور اس دن اس کی کوئی وکٹ نہ گری۔
لیکن اتنے بڑے خسارے نے سری لنکا کے بلے بازوں پر دباؤ قائم کر دیا تھا، جس کا چوتھے روز گریم سوان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جنہوں نے ساتھی گیند بازوں اینڈرسن اور اسٹیون فن کی ابتدائی کامیابیوں کے بعد حریف ٹیم کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ پہلے انہوں نے تلکارتنے دلشان کی وکٹ حاصل کی، پھر بری فارم کا شکار سنگاکارا کو ٹھکانے لگایا اور سب سے فیصلہ کن ضرب انہوں نے چوتھے روز کے اختتامی لمحات میں لگائی جب ایک ہی اوور میں انہوں نے تھیلان سمارا ویرا اور سورج رندیو کو بولڈ کر کے محض 215 پر سری لنکا کی چھ وکٹیں گرا دیں۔ چوتھے روز کا اختتام سری لنکا کے لیے اس عالم میں ہوا کہ شکست کے بادل گہرے ہو چکے تھے اور بالآخر پانچویں دن سوان نے میزبان ٹیم کی امیدوں کے آخری چراغ بھی گل کر دیے۔
سوان نے دوسری اننگز میں 6 وکٹیں اور یوں مجموعی طور پر میچ میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔
کیون پیٹرسن کو دونوں اننگز میں زبردست بلے بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ سیریز کی چار اننگز میں دو سنچریوں کی مدد سے 354 رنز بنانے والے سری لنکن قائد مہیلا جے وردھنے سیریز کے بہترین کھلاڑی بنے۔
ایشیا میں کم از کم ایک معرکہ سر کرنے کے بعد انگلستان اب اگلے ماہ سے ایک مرتبہ پھر ہوم گراؤنڈ پر ایکشن میں نظر آئے گا اور اس مرتبہ اس کا مقابلہ ویسٹ انڈیز سے ہوگا جو پہلے تین ٹیسٹ اور بعد ازاں تین ایک روزہ اور واحد ٹی ٹوئنٹی کھیلے گا۔ اس کے بعد انگلستان کی صلاحیتوں کا اصل امتحان شروع ہوگا جب جون کے مہینے میں آسٹریلیا 5 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیلنے کے لیے برطانیہ پہنچے گا جبکہ جولائی میں جنوبی افریقہ کے خلاف تین ٹیسٹ، 5 ایک روزہ اور 3 ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلوں کی اہم ترین سیریز ہوگی۔ یعنی ستمبر میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اعزاز کے دفاع تک انگلستان کو خوب کرکٹ کھیلنی ہے جبکہ دوسری جانب سری لنکا کی پاکستان کے خلاف ایک مجوزہ سیریز کے علاوہ کوئی سرگرمی نہیں ہے۔