حفیظ کی تقرری، پی سی بی نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے: وقار یونس

0 1,036

پاکستان کرکٹ بورڈ کا آل راؤنڈر محمد حفیظ کو ٹی ٹوئنٹی کی قیادت سونپنا اور ایک روزہ مقابلوں میں انہیں نائب کپتان بنانا یقیناً ایک ایسا فیصلہ ہے جس نے قومی کرکٹ شائقین، لکھاریوں اور سابق کرکٹرز کے درمیان ایک زبردست بحث کو جنم دے دیا ہے۔ جہاں ایک طرف کچھ لوگوں نے بورڈ کے اس فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں، وہیں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جنہوں نے فیصلے کی بھرپور تائید کی ہے۔

سینئر کھلاڑی بطور کپتان حفیظ کا ساتھ دینا چاہیے: سابق کوچ
سینئر کھلاڑی بطور کپتان حفیظ کا ساتھ دینا چاہیے: سابق کوچ

پاکستان کے سابق کوچ اور نامور تیز گیند باز وقار یونس بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے بورڈ کے اس فیصلے کو سراہا ہے اور دوسرے کھلاڑیوں پر محمد حفیظ کو ترجیح دینے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ وقار کا کہنا ہے کہ حفیظ کو ابتدائی مرحلے میں ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بناکر پاکستان کرکٹ بورڈ نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔

معروف ویب سائٹ پاک پیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے وقار یونس نے کہا کہ حفیظ ایک تجربہ کار کھلاڑی ہےاور پہلے مرحلے میں انہیں ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنانا بورڈ کی فہم و فراست کا ثبوت ہے۔ انہیں اگر ابتدا ہی میں ایک روزہ یا ٹیسٹ میچز کی قیادت سونپ دی جاتی تو یقیناً یہ ایک غیر معقول فیصلہ ہوتا۔ حفیظ ایک اچھا انتخاب ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔

پاکستان کرکٹ سالوں سے قیادت کے معاملے میں تنازعات کا شکار رہی ہے اوردورۂ سری لنکا میں حفیظ کا انتخاب بھی ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جبکہ کپتانی کے لئے دو امیدوار اور بھی موجود تھے۔ آنے والے مہینوں میں ٹیم کی کارکردگی کا گہرا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ ٹیم میں موجود سینئر کھلاڑی بطور کپتان حفیظ کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ وقار کا خیال ہے کہ ٹیم کے سینئر کھلاڑیوں کو کپتانی کی خواہش دل سے نکال کر حفیظ کا ساتھ دینا چاہیے۔

وقار نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ حفیظ کو ساتھی کھلاڑیوں کی حمایت حاصل ہو گی خاص طور پر سینئر کھلاڑیوں کی۔ جو کھلاڑی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ٹیم قیادت کی زمام کار اُن کے ہاتھوں میں آئے گی، مجھے امید ہے کہ وہ ٹیم اور ملک کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر حفیظ کے ساتھ تعاون کریں گے۔وقار نے کہا کہ حفیظ نے ہمیشہ ٹیم کپتان کا ساتھ دیا ہے لہٰذا وہ اس بات کے بجا طور پر مستحق ہیں کہ اُن کا بھی ساتھ دیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ حفیظ کے لئے ماحول سازگار رہے گا۔

دورۂ سری لنکا کے لئے وہاب ریاض بھی منتخب نہیں ہو سکے۔ پاکستان حالیہ ایشیا کپ میں بنگلہ دیش کے خلاف تو جیت سے ہمکنار ہوا مگر وہاب کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ بھارت کے خلاف انہوں نے چار اوورز میں بغیر وکٹ حاصل کئے 50 رنز دیئے۔ وقار یونس نے وہاب ریاض کی عدم شمولیت کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہاب ریاض کا عدم انتخاب ان کے اپنے مسائل اور طرز عمل کی وجہ سے ہے۔وقار نے کہا کہ کوچنگ کو دوران میں نے اکثر وہاب کو جدوجہد کرتے پایا۔ کبھی ان کا باؤلنگ ایکشن مسئلہ کرتا اور کبھی ان کا رویہ ہوتا۔ میں ہمیشہ اسے سمجھاتا کہ کامیابی کے لئے محنت اور ہدف کا تعین بہت اہم ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ وہاب موجودہ کوچ کو متاثر نہیں کر سکے، اسی لئے ٹیم سے باہر ہیں۔ یہ سب سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے، وہ ابھی جوان ہیں اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ اپنی خامیوں کو دور کر کے دوبارہ ٹیم میں جگہ بنانےمیں کامیاب ہو جائیں گے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد سمیع کا دورۂ سری لنکا کے لئے تینوں فارمیٹس میں انتخاب وقار کے لئے حیرت کا باعث تھا۔ وقار نے کہا سمیع کی شمولیت میرے لئے واقعی حیران کن ہے۔ سلیکٹرز کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی مقابلوں میں کھلاڑیوں کا انتخاب بنگلہ دیش پریمیئر لیگ جیسے کلب کرکٹ مقابلوں میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر نہ کریں۔ سلیکٹرز سے میری گزارش ہے کہ پیچھے چلنے کی بجائے آگے بڑھیں۔ سمیع اور اس جیسے دوسرے کھلاڑیوں کو ماضی میں بارہا آزمایا جا چکا ہے اور وہ ہمیشہ بڑے مقابلوں میں ناکام ہوئے ہیں۔

وقار کھلاڑیوں کی سلیکشن کے ایک پہلو سے سخت نالاں نظر آئے۔ اُن کے مطابق سلیکٹرز نے جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس کا مقصد علاقائی منتظمین کو خوش رکھنا لگتا ہے۔ وقار کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے بہت سے ایسے کھلاڑی جو اپنا اچھا وقت گزار چکے ہوتے ہیں، ٹیم کا حصہ بنا دیئے جاتے ہیں ۔ اور ایسا محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ بورڈ اور سلیکٹرز کو علاقائی منتظمین کی حمایت حاصل رہے۔

وقار کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں دورۂ سری لنکا کے لیے اسکواڈ کے انتخاب کے حوالے سے سلیکٹرز نے مصلحت اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس ضمن میں یاسرعرفات اور سہیل تنویر کی شمولیت میرے لئے باعث حیرت ہے۔ جب یاسر اچھی گیند بازی کر رہا تھا تو اس کو ٹیم سے باہر رکھا گیا اور اب اچانک سلیکٹرز کی نظرِعنایت اس پر پڑ گئی ہے اور اسے ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔سہیل تنویر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اسی طرح فیصل اقبال کا انتخاب بھی حیران کن ہے۔ تعجب ہے کہ کسی نوجوان کھلاڑی کو ان پر ترجیح کیوں نہ دی گئی جبکہ ان کو اپنے آپ کو ثابت کرنے کے کئی مواقع مل چکے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ٹیم میں کچھ کھلاڑی ایسے ہیں جن کو نہیں ہونا چاہیے تھا مگر وہ علاقائی منتظمین کی وجہ سے ٹیم میں شامل کر دیئے گئے۔

وقار، جنہوں نے اپنے 14 سالہ مثالی کریئر میں789 وکٹیں حاصل کیں، سلیکٹرز کو مشورہ دیتے ہیں کہ تینوں فارمیٹس کے لئے الگ الگ اسکواڈز کے معاملے میں ذرا صبر سے کام لیں۔عین ممکن ہے کہ ابتدا میں یہ حکمت عملی بارآور ثابت نہ ہو۔ سلیکٹرز کو چاہیے کہ اس تجربے کو تھوڑا وقت دیں۔انہوں نے کہا کے استحکام اور سمجھ بوجھ کے ساتھ فیصلے کرنے میں ہی پاکستان کرکٹ کی کامیابی ہے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نے کہا کے ہر فارمیٹ میں تبدیلیاں تو کرنی پڑتی ہیں مگر اس دفعہ سلیکٹرز نے کچھ زیادہ ہی الٹ پلٹ کی ہے۔ پاکستان کرکٹ تاریخ میں المیہ ہی یہ رہا ہے کہ یہاں کوئی چیز بگڑی اور وہیں بڑی بڑی تبدیلیاں کر ڈالیں، جس کا نتیجہ بالآخر نظام کی تباہی کی صورت میں سامنے آتا رہا۔ میرا بورڈ کو یہ مشورہ ہے کہ اسکواڈز سے متعلق اس نئی حکمت عملی کو تھوڑا وقت دیں اور جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ اسی طرح حفیظ کو بھی پاؤں جمانے کا موقع ملنا چاہیے۔ ٹیم، سلیکشن کمیٹی، کوچز اور چیئرمین شپ میں ہر وقت تبدیلی لاتے رہنا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں۔انہوں نے کہا کہ کے کرکٹ کے حوالے سے ہمارے یہاں اتنا ٹیلنٹ موجود ہے کہ ماضی قریب میں اتنے نشیب و فراز دیکھنے اور تنازعات میں گھر جانے کے باوجودپاکستان اچھی کرکٹ کھیلتا رہا۔

پاکستان کے آل راؤنڈر عبد الرزاق نے حال ہی میں ایک بیان میں الزام لگایا تھا محسن خان اور وقار یونس اُن کو ٹیم سے باہر کرنے میں سر گرم رہے ہیں اور سابق کوچزنے ان کو ضائع کیا اور ان کو بیٹنگ میں بہت نیچے بھیجتے رہے۔ ان الزامات کے حوالے سے وقار یونس کا یہ کہنا تھا کہ میڈیا میں ایسے بیانات دینے اور شکایتیں کرنے کے بجائے عبدالرّزّاق کو اپنی کارکردگی پر توجہ دیتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اس وقت ٹیم سے کیوں باہر ہے۔وقار نے کہا کہ میرے خیال میں عبد الرزاق کو دکھڑا رونے کے بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اس وقت ٹیم میں کیوں نہیں جبکہ نہ میں اور نہ ہی محسن کوچ کے عہدے پر ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے، وہ ہمیشہ اسی طرح گلے شکوے کرتا رہا ہے۔ وہ رچرڈ پائی بس سے بھی خوش نہیں تھا۔ اس کو چاہیے کہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے اور موجودہ ٹیم سلیکٹرز کی رائے کو اپنے بارے میں ہموار کرے۔