صرف بلے باز کی حیثیت سے کھیلنے کو بھی تیار ہوں: کامران اکمل
بلے بازوں کی بدترین کارکردگی اور تکنیکی مسائل کے باعث پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا ایک مرتبہ پھر پرانے مہروں کی جانب دیکھنے پر مجبوردکھائی دے رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وکٹوں کے پیچھے، اور آگے بھی، سنگین مسائل سے دوچار رہنے والے کامران اکمل ایک مرتبہ پھر ٹیم میں واپسی کے امیدوار بن گئے۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں محض چند ماہ رہ گئے ہیں اور پاکستان کی کارکردگی میں ابھی تک تسلسل نہیں آیا۔ بلے باز مسلسل ناکام ہو رہے ہیں اور نچلےآرڈر میں پاکستان اک ایسے باصلاحیت بلے باز کی ضرورت ہے جو حتمی لمحات میں میچ کو ہاتھ سے نہ نکلنے دے شاید یہی وجہ ہے کہ اتنے مختصر وقت میں کسی نئے مہرے کو آزمانے سے زیادہ موثر ایک آزمودہ کھلاڑی کو شامل کرنا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کامران اکمل ایک مرتبہ پھر ٹیم میں واپسی کے لیے پر تولتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آخری مرتبہ گزشتہ سال بھارت کے خلاف عالمی کپ 2011ء کا سیمی فائنل کھیلنے والے کامران اکمل نے لاہور میں معروف ویب سائٹ پاک پیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ سلیکٹرز 15 ماہ تک پاکستان کی نمائندگی سے محروم رہنے کے بعد اب اگلے اجلاسوں میں ان کے نام پر ضرور غور کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی رات میں کوئی ٹیم اچھی سے بری نہیں بن جاتی، شائقین کوصبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ سری لنکا میں موجود کھلاڑی سخت محنت کر رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ سیریز کے باقی مراحل میں وہ عمدہ کارکردگی دکھائی گے۔ قومی ٹیم میں تجربہ اور صلاحیت کی کمی نہیں ہے لیکن کبھی کبھار صورتحال ایسی ہو جاتی ہے کہ خصوصاً ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ٹیم دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ہدف کے تعاقب کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کچھ نفسیاتی مسائل ہیں، مسئلہ صرف اس دباؤ کو جھیلنا ہے۔ ہدف کے تعاقب میں ہمارے سامنے انضمام کی صورت میں شاندارمثال موجود ہے اور میرے خیال میں موجودہ ٹیم کو انہی کے طریقے کو اپنانا چاہیےجیسا کہ مخصوص حریف گیند بازوں کو ہدف بنانا اور اسکور بورڈ کو مسلسل حرکت میں رکھنا۔
اپنے عزائم اور آسٹریلیا کے خلاف محدود اوورز کی سیریز اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے حوالے سے کامران اکمل کا کہنا ہے کہ ان کا جارحانہ انداز اور ابتدائی لمحات میں فیلڈرز کے اوپر سے گیند کو اٹھا دینے کی صلاحیت پاکستان کو ایک متبادل آپشن فراہم کر سکتی ہے۔ میں مکمل طور پر فٹ اور تیار ہوں اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بھرپور تربیت کر رہا ہوں۔ میں نے انضمام الحق سے بھی مشورے لیے ہیں۔البتہ اب یہ سلیکٹرز پر منحصر ہے کہ وہ مجھے ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں لیکن میں ملک کی نمائندگی کا ایک اور موقع ملنے پر بہت خوش ہوں گا۔
کامران اکمل کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹس میں تجربہ بہت اہم کردار ادا کرے گا اور تجربے کی حامل ٹیموں کو دوسروں پر برتری حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹیم میں بطور بلے باز جگہ بنتی ہے تو وہ کوچ، کپتان اور سلیکٹرز کے کہنے پر وکٹ کیپر کا کردار چھوڑ سکتے ہیں ۔
سری لنکا کے خلاف جاری سیریز چار مقابلوں کے بعد 2-1 سے میزبان ٹیم کے حق میں ہے اور پاکستان کو کل ہونے والے آخری ایک روزہ میں لازماً فتح حاصل کرنی ہے اور گزشتہ دو مقابلوں کی کارکردگی کے باعث ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان تین ٹیسٹ میچز کھیلے گا۔
یہ انٹرویو پاک پیشن انتظامیہ کی جانب سے خصوصی طور پر کرک نامہ کو ارسال کیا گیا اور ان کی اجازت سے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا گیا ہے۔ خصوصی انٹرویو کی فراہمی پر ہم پاک پیشن انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔