آسٹریلیا کے صبر کا پیمانہ لبریز، عرب امارات میں سیریز پر اظہار تشویش

1 1,059

بالآخر آسٹریلیاکے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو ہی گیا اور اس کی پليئرز ایسوسی ایشن نے متحدہ عرب امارات میں پاک-آسٹریلیا سیریز کے ممکنہ انعقاد پر اپنی تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔ گو کہ پاکستان نے ابھی تک میزبان کے طور پر عرب امارات کے انتخاب کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے لیکن قرائن یہی بتاتے ہیں کہ نظر انتخاب صحرائے عرب کے اس مشرقی حصے پر ہی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا عرب امارات کی گرمی خصوصاً ایک روزہ مقابلوں کے انعقاد کے حوالے سے سخت پریشان میں مبتلا ہے۔

آسٹریلیا 2002ء کے یہ مناظر نہیں بھول سکتا، ڈیمین مارٹن (بائیں) اور میتھیو ہیڈن (دائیں) شارجہ میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کے دوران گرمی سے بچنے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے (تصویر: Reuters)
آسٹریلیا 2002ء کے یہ مناظر نہیں بھول سکتا، ڈیمین مارٹن (بائیں) اور میتھیو ہیڈن (دائیں) شارجہ میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کے دوران گرمی سے بچنے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے (تصویر: Reuters)

دونوں ممالک نے سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء سے قبل ماہ اگست میں محدود اوورز کی ایک سیریز کھیلنی ہے جس میں تین ایک روزہ اور تین ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلے جائیں گے۔ اس سیریز کے لیے ابتدا میں سری لنکا کا انتخاب کیا گیا تھا، لیکن وہاں پریمیئر لیگ کے معاملات طے ہو جانے کے باعث سری لنکا کرکٹ نے میزبانی سے ہاتھ اٹھالیا، اور پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء سے قبل اہم ترین سیریز کے لیے دربدر بھٹکنے پر مجبور کر دیا۔

صحرائے عرب کے خطرناک ترین حصے ربع الخالی اور خلیج فارس کے درمیان واقع متحدہ عرب امارات میں ماہ اگست سال کے گرم ترین مہینوں میں سے ایک ہے اور اس مہینے کے دوران صرف دبئی میں اوسط درجہ حرارت 41.3 درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ جون، جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینوں میں یہاں کرکٹ کبھی نہیں کھیلی گئی۔ صرف ایک مرتبہ اکتوبر کے مہینے میں 2002ء میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دو ٹیسٹ میچز شارجہ میں ہوئے تھے، جہاں گرمی سے آسٹریلوی کھلاڑیوں کے چھکے چھوٹ گئے تھے۔

شاید 2002ء کے مناظر ہی آسٹریلیا کو یاد ہیں، یہی وجہ ہے کہ آسٹریلین کرکٹرز ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو پال مارش کا کہنا ہے کہ اک ایسے علاقے میں جہاں درجہ حرارت 45 درجہ سے بھی بڑھ جاتا ہے، وہاں کرکٹ کھیلنے کافیصلہ کس طرح دانشمندانہ ہو سکتا ہے؟ اس انتہائی گرم ماحول میں کھلاڑیوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اس کو مدنظر رکھا جائے۔

گو کہ اس مسئلے کے حل کے لیے متحدہ عرب امارات کرکٹ بورڈ نے صرف ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی سیریز کا خیال پیش کیا تھا لیکن آئی سی سی اس پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس نے کسی بھی ٹیم کے لیے سال میں زیادہ سے زیادہ مقابلوں کی حدیں مقرر کر رکھی ہیں اور اگر وہ پاکستان اور آسٹریلیا کو 7 یا 5 ٹی ٹوئنٹی کی سیریز کھیلنے کی اجازت دیتا ہے تو یہ ملک اس حد کو عبور کر جائیں گے۔ یہ خیال اس لیے پیش کیا گیا تھاکہ میچز دن کے بجائے رات میں ہوں گے اور کھلاڑی دن کی دھوپ اور شدید گرمی سے بچ سکیں گے۔

مارش نے کہا کہ اگر وہ کھیلنے کے لیے متحدہ عرب امارات کا انتخاب کرتے ہیں تو عقل تو یہ کہتی ہے کہ چھ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کا انعقاد زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ ٹی ٹوئنٹی مقابلے مغرب کے بعد کھیلے جا سکتے ہیں۔لیکن ہم فی الحال انتظار کر رہے ہیں کہ آئی سی سی کیا کہتا ہے۔

ایک روزہ مقابلے کے شام پانچ بجے کے بعد آغاز کی تجویز بھی گردش میں ہے لیکن مارش کا کہنا ہے کہ ان کی ترجیح مکمل طور پر ٹی ٹوئنٹی مقابلوں پر مشتمل سیریز ہی ہوگی۔

فی الحال دیکھنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ’ہوم سیریز‘ کے لیے عرب امارات کے انتخاب کا باضابطہ اعلان کب کرتا ہے اور آئی سی سی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کیونکہ اس امر میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے اعلیٰ ٹورنامنٹ کی تیاری کے لیے یہ سیریز بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور دونوں ٹیمیں کھیلنے کا موقع نہیں کھونا چاہیں گی۔