ڈی آر ایس کی عدم موجودگی، پاکستانی کوچ پھٹ پڑے

0 1,011

گال میں جاری پاک-سری لنکا ٹیسٹ اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہو چکا ہے، ایک طرف جہاں پاک بلے بازوں کی اب تک کی ناقص کارکردگی پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں ایک نئے اعزاز سے محروم کرتی نظر آ رہی ہے تو دوسری جانب امپائروں نے بھی نظرثانی نظام (ڈی آر ایس) کی عدم موجودگی میں بلاخوف اور ”پیٹ بھر کر“ غلطیاں کیں۔ اس سے ڈی آر ایس کی اہمیت کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ ایلیٹ پینل کے امپائروں کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان عائد ہوتا ہے۔

ڈیو واٹمور ڈی آر ایس کی عدم موجودگی کے علاوہ مصباح الحق پر لگائی گئی پابندی پر بھی معترض ہیں (تصویر: AFP)
ڈیو واٹمور ڈی آر ایس کی عدم موجودگی کے علاوہ مصباح الحق پر لگائی گئی پابندی پر بھی معترض ہیں (تصویر: AFP)

اب جبکہ پہلے ٹیسٹ کے چوتھے دن کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، کم از کم 12 فیصلے ایسے ہيں جو غلط کیے گئے اور بیشتر فیصلوں کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا۔ ایک روزہ سیریز میں پے در پے شکستوں کے بعد پاکستان کے حوصلے ویسے ہی شکستہ تھے، اور کپتان پر پابندی کے باعث نائب کپتان کی قیادت کے لیے میدان میں اترنے والی ٹیم نے بمشکل اپنی ہمت مجتمع کی کہ امپائروں کے فیصلے ان پر قہر بن کر نازل ہو گئے اور میچ کے پہلے ہی روز ہی پاکستان کو مشکلات سے دوچار کر دیا۔ اب عالم یہ ہے کہ پاکستانی کوچ ڈیو واٹمور بھی پھٹ پڑے ہیں اور انہوں نے سری لنکا کرکٹ پر اعتراض کیا ہے کہ سیریز کے لیے ڈی آر ایس کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟ جبکہ رواں سال ہی انگلستان کے خلاف سیریز میں ڈی آر ایس موجود تھا۔

سری لنکا نے انگلستان کے خلاف مذکورہ سیریز میں ہاٹ اسپاٹ کے علاوہ تمام ٹیکنالوجیاں استعمال کی تھیں لیکن پاکستان کے خلاف سیریز کے لیے ڈی آر ایس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ حالانکہ گزشتہ سال کے اواخر میں پاکستان اور سری لنکا کے مابین متحدہ عرب امارات میں ہونے والی سیریز میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسپانسر کی مدد سے ڈی آر ایس کے استعمال کو یقینی بنایا تھا اور اس کی مدد سے سیریز میں متنازع فیصلوں کو روکنے میں بھرپور مدد ملی تھی۔

بہرحال، آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کوچ واٹمور کا کہنا ہے کہ انگلستان کے خلاف ڈی آر ایس تھا تو ہمارے ساتھ کھیلے گئے مقابلوں میں کیوں نہیں؟ میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ ایک سیریز کے لیے ڈی آر ایس کو منتخب کیا جائے اور اگلے معرکوں میں اسے ٹھکرا دیا جائے، یہ قدم سمجھ سے بالاترہے۔ میرے لیے یہ بات اہم ہے کہ ڈی آر ایس کو ہر سیریز کے لیے لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے امپائرنگ کے معیار پر انگلی اٹھائے بغیر کہا کہ وہ اس حوالے سے باضابطہ طور پر اپنی شکایت درج کرائیں گے۔

گال ٹیسٹ میں پے در پے ناقص فیصلوں نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے کوالالمپور میں سالانہ اجلاس سے قبل ڈی آر ایس کے لازمی نفاذ کے مطالبوں کو تقویت بخشی ہے۔

اس وقت بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی سیریز میں ڈی آر ایس کے نفاذ کا انحصار میزبان ملک کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اسے اختیار کرے یا نہیں۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے گزشتہ سال کے انہی ایام میں ڈی آر ایس کو لازمی قرار دیا تھا لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ کی مسلسل مخالفت کے بعد آئی سی سی ایگزیکٹو بورڈ نے اکتوبر 2011ء میں پچھلے قدم لوٹنے کا فیصلہ کیا اور ڈی آر ایس کی لازمی حیثیت کا خاتمہ کر دیا یعنی کہ اگر کھیلنے والے ممالک رضامند ہوں تو وہ ڈی آر ایس کا استعمال کر سکتے ہیں ، آئی سی سی کی جانب سے انتخاب یا عدم انتخاب پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا۔ گو کہ وہ استعمال کی حوصلہ افزائی ضرور کرے گا اور اپنے ایونٹس یعنی عالمی کپ، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، چیمپئنز ٹرافی اور ٹیسٹ چیمپئن شپ میں اسے استعمال کرے گا۔

لوٹتے ہیں گال ٹیسٹ کی جانب جہاں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کی داستان کئی زاویوں سے المیہ تھی جس کا ایک پہلو امپائروں این گولڈ اور اسٹیو ڈیویس کے ناقص فیصلے بھی تھے۔ قبل پہلی صبح عمر گل کی گیند پر تھارنگا پرناوتنا کو آؤٹ قرار نہ دینے کے بعد مہیلا جے وردھنے کو بھی اس وقت زندگی ملی جب وہ محض 21 رنز پر کھیل رہے تھے۔

جب پاکستان دوسرے روز میدان میں بلے بازی کے لیے اترا تو توفیق عمر کو متنازع انداز میں ایل بی ڈبلیو دیا گیا جب وہ نووان کولاسیکرا کی ایک اندر آتی ہوئی گیند کو چھوڑنے کی پاداش میں ایل بی ڈبلیو قرار دیے گئے جبکہ گیند ان کے دائیں پیڈ کے اوپری حصے پر لگی تھی اور ممکنہ طور پر وکٹوں کے اوپر سے گزر جاتی۔ نائٹ واچ مین سعید اجمل سورج رندیو کی ایک گیند کو روکنے کی کوشش میں قریب کھڑے کھلاڑی کو کیچ دے بیٹھے اور ری پلے سے صاف ظاہر تھا کہ گیند ان کے بلے کو چھوئے بغیر گزری ہے۔

اگلے روز پاکستان کے سینئر ترین بلے باز کو رنگانا ہیراتھ کی گیند پر اس طرح ایل بی ڈبلیو دیا گیا کہ گیند ان کے بلے سے لگ کر پیڈ پر لگی تھی۔ پاکستان جو پہلے ہی 48 پر 5 وکٹیں گنوا چکا تھا، یونس کے آؤٹ ہوتے ہی ڈھیر ہو گیا۔

سری لنکا کی دوسری اننگز کے دوران اوپنر تلکارتنے دلشان کے ایک سویپ پر وکٹوں کے پیچھے پکڑے گئے ایک کیچ کو امپائر نے آؤٹ نہیں دیا البتہ بعد میں دلشان جنید خان کی ایک خوبصورت گیند پر ایل بی ڈبلیو قرار دیے گئے جبکہ گیند اندرونی پیڈ کی بالائی سطح کو چھو کر گزری تھی۔ پھر پرسنا جے وردھنے کو آؤٹ قرار نہیں دیا گیا جبکہ کولاسیکرا کے معاملے پر بھی فیصلہ سری لنکا کے حق میں گیا۔

ڈی آر ایس کے عدم انتخاب کے علاوہ ڈیو واٹمور نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے مصباح الحق پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔ مصباح الحق کو سری لنکا کے خلاف پانچویں ایک روزہ میچ میں پاکستان کی اوورز پھینکنے کی سست شرح کے باعث ایک میچ کھیلنے کی پابندی عائد کی گئی تھی اور ان کی جگہ گال میں قیادت کے فرائض محمد حفیظ نے انجام دیے۔ واٹمور نے کہا کہ کھلاڑی پر پابندی عائد کرنے سے بہتر ہے کہ میچ کے دوران سزا دینے کا کوئی طریقہ وضع کیا جائے بجائے اس کے کہ اس سزا کو اگلے میچ تک موخر کیا جائے۔

گال میں تیسرے روز کے کھیل کے بعد واٹمور کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتاکہ ایک اچھے کھلاڑی خصوصاً کپتان کو کھیلنے سے روک دیا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ اس کے قوانین ہیں، لیکن لوگ بہترین ٹیموں کو نبرد آزما دیکھنا چاہتے ہیں، خصوصاً ٹیسٹ مقابلوں میں جس کی مقبولیت کے بارے میں کئی حلقے پریشان ہیں۔ اس لیے آپ کو کم از کم ٹیسٹ میں تو ہر مرتبہ بہترین کھلاڑیوں کو پیش کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں ہمیں ایسے قوانین پر ازسرنو غور کرنے اور انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سری لنکا کے خلاف پانچویں ایک روزہ میں، جہاں پاکستان کو سیریز برابر کرنے کے لیے لازماً فتح درکار تھی، پاکستان مقررہ وقت میں اوورز مکمل نہ کر پایا اور تین اوورز تاخیر سے پھینکے جس کے نتیجے میں میچ ریفری کرس براڈ نے پاکستان کے کپتان مصباح الحق پر ایک مقابلے کی پابندی اور پوری ٹیم پر 40 فیصد میچ فیس کا جرمانہ عائد کیا۔