[آج کا دن] پاکستان کا پہلا قائد
جب پاکستان نے پہلی بار دنیائے کرکٹ میں قدم رکھا تو کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ وہ ابتداء ہی سے ایسی شاندار فتوحات سمیٹے گا۔ 1952ء کے اولین دورۂ بھارت میں لکھنؤ ٹیسٹ میں ایک زبردست جیت کے بعد پاکستان نے بابائے کرکٹ انگلستان کو اسی کی سرزمین پر اوول کے میدان میں تاریخی شکست دی اور اعلان کر دیا کہ دنیائے کرکٹ میں ایک اور طاقت کا ظہور ہونے جا رہا ہے۔
ان ایام جب پاکستان کرکٹ 'گھٹنوں گھٹنوں چل رہی تھی' جس شخص نے اسے چلنا سکھایا، اسے فتوحات کی راہ پر گامزن کیا اور استحکام بخشا، وہ کپتان عبد الحفیظ کاردار تھے۔ جو 1925ء میں آج ہی کے روز یعنی 17 جنوری کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔
آپ نے اپنی بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز متحدہ ہندوستان کی طرف سے کیا اور 1946ء میں انگلستان کا دورہ کرنے والے ہندوستانی دستے کے بھی رکن تھے۔ اسی دورے میں آپ نے لارڈز کے تاریخی میدان میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ اس سیریز کے بعد آپ ہندوستان واپس نہیں آئے بلکہ آکسفرڈ یونیورسٹی سے اپنا تعلیمی رشتہ استوار کر لیا اور کرکٹ کو بھی ساتھ ساتھ چلاتے رہے۔ اس عرصے میں آپ نے واروِکشائر کاؤنٹی کی نمائندگی کی، یہاں تک کہ اسی کلب کے چیئرمین کی صاحبزادی سے شادی بھی ہو گئی اور آپ پاکستان کا انتخاب کرتے ہوئے وطن واپس آ گئے۔
پاکستان ان دنوں سخت سیاسی، انتظامی اور معاشی حالات سے گزر رہا تھا لیکن قوم کا جذبہ ایثار اور وطن کے لیے کچھ کر دکھانے کا حوصلہ بھی اپنے عروج پر تھا۔ ابتدائی مشکل ایام گزارنے کے بعد پاکستان میں معمولات زندگی رواں دواں ہو گئے اور بالآخر 1952ء میں بین الاقوامی سطح پر پہلی بار پاکستان کرکٹ کے عالمی منظرنامے پر جلوہ گر ہوا جب عبد الحفیظ کاردار کی زیر قیادت قومی ٹیم دورے کے لیے بھارت روانہ ہوئی۔
اس دورے میں پاکستان نے لکھنؤ میں تاریخی فتح سمیٹی۔ اکتوبر 1952ء میں ہونے والے لکھنؤ ٹیسٹ میں فضل محمود کی تباہ کن باؤلنگ نے بھارت کو ایک اننگز اور 43 رنز کی شرمناک شکست سے دوچار کیا۔ البتہ سیریز 2-1 سے بعد ازاں بھارت کے نام رہی۔ لکھنؤ کی فتح پاکستان کرکٹ کی مضبوط بنیاد ڈال گئی۔
پھر 1954ء میں کاردار قومی دستے کو لے کر انگلستان روانہ ہوئے جہاں ایک مرتبہ پھر فضل محمود کی شاندار باؤلنگ نے پاکستان کو اوول میں تاریخی فتح سے نوازا۔ یہ تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ کسی ٹیم نے انگلستان آ کر اپنا پہلا ہی ٹیسٹ جیت لیا ہو۔اسے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی پہلی عظیم کامیابی تصور کیا جاتا ہے، اور اس کا جتنا کریڈٹ فضل محمود کو جاتا ہے، اتنا ہی عبد الحفیظ کی قیادت کوبھی جانا چاہیے۔
اُس کے بعد 1955ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں فتح اور 1956ء میں آسٹریلیا کی واحد ٹیسٹ میں میزبانی میں حاصل کی گئی یادگار جیت پاکستان کی اولین سیریز فتوحات تھیں۔
1958ء میں دورۂ ویسٹ انڈیز کے ساتھ عبد الحفیظ کاردار کا کیریئر اپنے اختتام کو پہنچا۔ جہاں سیریز میں شکست کھانے کے بعد پاکستان نے آخری ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کو اس کی سرزمین پر ایک اننگز اور ایک رن کے واضح مارجن سے شکست دے کر کاردار کو شاندار انداز میں الوداع کیا۔
یہی وہ دورہ تھا جس میں حنیف محمد نے وہ تاریخی ٹرپل سنچری بنائی، جو آج بھی کرکٹ کی تاریخ کی بہترین اننگز میں شمار ہوتی ہے۔ عبد الحفیظ کاردار اور حنیف محمد کے درمیان اس میچ سے قبل کسی معاملے پربات چیت بند تھی لیکن کاردار نے جس طرح رقعے لکھ کر حنیف محمد کی آمد سے قبل ان کے تکیے کے نیچے رکھ کر آتے تھے، جن میں حنیف کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، وہ حفیظ کے بڑے پن اور عظیم قائد ہونے کی دلیل تھے۔
عبد الحفیظ کاردار نے اپنے کیریئر میں 26 ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے 23 پاکستان کے لیے جبکہ بقیہ 3 غیر منقسم ہندوستان کے لیے کھیلے۔ پاکستان کے لیے کھیلے گئے تمام ہی مقابلوں میں انہوں نے قیادت کے فرائض انجام دیے۔ بائیں ہاتھ سےبلے بازی اور اسی ہاتھ سے اسپن گیندبازی کرنے والے حفیظ نے کیریئر میں 23.76 کی اوسط سے 927 رنز بنائے اور 21 وکٹیں حاصل کیں۔عبد الحفیظ کاردار کا یہ بھی ریکارڈ رہا کہ انہوں نے اپنی قیادت کے دوران ہر حریف ٹیم کو کم از کم ایک شکست ضرور تھی۔
آپ 1972ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیئرمین سلیکٹرز بھی بنے اور پھر ترقی پاتے ہوئے صدر کے عہدے تک پہنچ گئے۔ لیکن بے جا حکومتی مداخلت اور کچھ اپنے سخت رویے کے باعث بالآخر 1977ء میں اس وقت بورڈ سے مستعفی ہوگئے جب تنخواہوں کے معاملے پر کھلاڑیوں کی بورڈ سے سخت ناراضگی و احتجاج کا معاملہ آیا۔
عبدا لحفیظ کاردار پاکستان کی کرکٹ کے دو محترم ترین کپتانوں میں سے ایک تھے۔ عمران خان کے علاوہ کسی پاکستانی کپتان کو کھلاڑیوں اور قوم کی جانب سے اس عزت و تکریم کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ عبد الحفیظ کاردار نے پاکستان کے اولین سپر اسٹارز حنیف محمد اور فضل محمود کی رہنمائی کی اور پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ میں ایک قوت بنانے کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ آپ 21 اپریل 1996ء کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔
آپ تقسیم ہند کے زمانے میں آپ پاکستان کے قیام کے زبردست حامی تھے جبکہ بعد ازاں سیاست میں بھی شریک رہے اور ایک مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور صوبائی کابینہ میں وزیر بھی رہے۔