[آج کا دن] اک تاریخی فتح یا ……؟
اسے انگلستان کی تاریخی فتح کہا جائے یا پھر کچھ اور؟ اک ایسا مقابلہ جسے پہلے پہل تو کرکٹ کی تاریخ کے یادگار ترین مقابلوں میں شمار کیا گیا اور انگلستان اور جنوبی افریقہ دونوں ٹیموں کے کپتان زبردست تعریف کے مستحق ٹھیرے، لیکن جب اصل عقدہ کھلا تو سب سر پیٹ کر رہ گئے۔
جنوبی افریقہ کے دارالحکومت پریٹوریا سے ملحقہ علاقے سنچورین کا سپر اسپورٹ پارک 2000ء کے انہی ایام میں اک ایسے مقابلے کا میزبان رہا، جس نے بعد ازاں بہت بدنامی سمیٹی۔ یہ وہی مقابلہ ہے، جس میں دونوں ٹیموں کے کپتانوں نے بارش متاثرہ مقابلے میں حیران کن طور پر ایک، ایک اننگز سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور پھر سنسنی خیز مراحل کے بعد انگلستان نے میچ جیت لیا۔
بعد ازاں جب جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے میچ فکسنگ اسکینڈل میں پھنسے تو وہاں جا کر اس راز کا پردہ فاش ہوا کہ وہ ایک سٹے باز کے کہنے پر ہر حال میں میچ کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف خود جنوبی افریقہ کی دوسری اننگز سے دستبردار ہوئے بلکہ حریف کپتان ناصر حسین کو بھی قائل کیا کہ وہ انگلستان کی پہلی اننگز بغیر آغاز کے ڈکلیئر کر کے میچ کو نتیجہ خیز مرحلے میں پہنچا دیں۔
یہ 5 ٹیسٹ میچز کی سیریز کا آخری مقابلہ تھا، جس میں ابتداء میں صرف پہلے دن کا کھیل ممکن ہو سکا اور پھر تین دن کی مسلسل بارش نے میچ کے نتیجہ خیز بننے کے تمام امکانات ختم کر دیے۔ پانچویں و آخری دن جنوبی افریقہ نے اپنی اننگز کا دوبارہ آغاز کیا، اور اسکور کو 155 سے 248 رنز کر پہنچا کر اننگز ڈکلیئر کر دی۔
اس مرحلے پر ہنسی کرونیے نے ناصر حسین کو آمادہ کیا کہ اگر وہ اپنی پہلی اننگز بغیر کھیلے ڈکلیئر کر دیں تو وہ دوسری اننگز سے دستبردار ہو جائیں گے اور یوں میچ کو نتیجہ خیز بنایا جا سکتاہے۔
بڑی سوچ بچار کے بعد انگلستان نے اس پیشکش کو قبول کیا، کیونکہ وہ سیریز میں کم از کم ایک بار جیت کا مزا چکھنا چاہتا تھا، اور یہ اس کا بہترین موقع تھا۔ بہرحال دونوں اننگز بغیر کھیلے ختم ہوئیں تو انگلستان کو 76 اوورز میں 249 رنز کا ہدف ملا۔ میچ انتہائی سنسنی خیز ثابت ہوا کیونکہ انگلستان آخری اوور میں اس وقت ہدف تک پہنچ پایا، جب اس کی محض دو وکٹیں باقی تھیں۔ جنوبی افریقہ پہلے ہی دو ٹیسٹ جیت کر سیریز اپنے نام کر چکا تھا، اس لیے ٹرافی تو ہنسی کرونیے ہی کو ملی۔
اس وقت ہنسی کرونیے پر تعریف کے سب سے زیادہ ڈونگرے انگلش پریس نے برسائے۔ کیونکہ کرونیے کا ہی فیصلہ تھا، جس نے انگلستان کو تاریخی فتح کے لیے امید کی کرن دکھائی۔ لیکن جب سٹے بازی والا معاملہ کھلا تو بقول ناصر حسین ”انگلستان کی فتح کو مزا کرکرا کر دیا گیا، اس ٹیسٹ کو ہمیشہ ایسے میچ کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو فکس تھا۔“
پس پردہ کیا ہو رہا تھا؟ ذرا ملاحظہ کیجیے۔ اس ٹیسٹ میچ کے تین ماہ بعد میچ فکسنگ کا عقدہ کھلا اور ایک سال بعد جنوبی افریقہ نے اس کی تحقیقات کیں تو بہت سارے راز افشا ہوئے۔ جن میں سنچورین ٹیسٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایک سٹے باز مارلن ارونسٹیم نے ہنسی کرونیے سے رابطہ کیا تھا کہ اگر میچ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تو وہ بڑے مالی نقصان سے دوچار ہو جائے گا، اور اگر کرونیے میچ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کچھ کر سکے تو وہ اسے ایک پیشکش کر سکتا ہے۔
ہنسی کرونیے نے میچ فکسنگ معاملے کی سماعت کرنے والے کنگ کمیشن کے روبرو بتایا کہ ایک سٹے باز نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں سنچورین ٹیسٹ کے آخری روز ناصر حسین سے جلد اننگز ختم کرنے کا مطالبہ کروں اور وہ اس پر مجھے ڈیڑھ لاکھ ڈالرز دیں گے۔ اُس وقت تو سٹے باز کے ساتھ کوئی معاملہ طے نہیں پایا لیکن اگلے روز یعنی میچ کے آخری دن ناصر حسین کی رضامندی کے بعد میں نے سٹے باز کو پیغام بھیجا کہ ”میچ اب بھی اوپن ہے۔“ میچ کے اختتام پر اس سٹے باز نے ہوٹل میں مستقل دو روز مجھ سے ملاقات کی اور ایک چمڑے کی جیکٹ مجھے دی جس میں 50 ہزار رینڈ (جنوبی افریقی کرنسی) کی رقم تھی۔
البتہ ہنسی کرونیے کا کہنا تھا کہ انہوں نے سٹے باز سے معاملہ صرف میچ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کیا تھا، اس لیے نہیں کہ یہ میچ انگلستان ہی جیتے گا۔ ہم نے میچ میں بھرپور جان لڑائی، لیکن حتمی لمحات میں بالآخر فتح انگلستان کو نصیب ہوئی۔
18 جنوری کا دن اب کرکٹ کی تاریخ کے سیاہ ترین ایام میں سے ایک گنا جاتا ہے، کیونکہ اس میں ایک شخص نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے کرکٹ جیسے کھیل کے حسن کو گہنایا۔ اگر کسی کو اس میچ کے حتمی لمحات یاد ہوں تو اندازہ ہوگا کہ انگلستان کے کھلاڑیوں کو اس تاریخی فتح کی حقیقت کھلنے پر کس قدر افسوس ہوا ہوگا۔