واٹمور سے پہلے، واٹمور کے بعد

2 1,036

جب پاکستان نے 2012ء کے اوائل میں اُس وقت کی عالمی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم انگلستان کو تین-صفر سے تاریخی کلین سویپ کیا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کرکٹ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پہنچ گئی ہے۔ کہاں چند ماہ قبل اسپاٹ فکسنگ تنازع میں ملوث ہو کر اپنا وقار کھونے والا پاکستان اور کہاں انگلستان کو چاروں شانے چت کرکے جشن منانے والا پاکستان۔ اس تنازع کے بعد تو ایسا لگتا تھا کہ ٹیم میں نئی روح پھونک دی گئی ہے، اسے ایک سیریز میں بھی شکست کا منہ نہیں دیکھنا پڑا، یہاں تک کہ معاملات غیر ملکی کوچ ڈیو واٹمور کو دے دیے گئے، جس کے بعد پاکستان اب تک ایک ٹیسٹ سیریز بھی نہیں جیت سکا۔

مسلسل 7 سیریز تک ناقابل شکست رہنے والی ٹیم واٹمور کے آنے کے بعد ایک سیریز بھی نہ جیت پائی، زمبابوے کے خلاف بھی نہیں (تصویر: AFP)
مسلسل 7 سیریز تک ناقابل شکست رہنے والی ٹیم واٹمور کے آنے کے بعد ایک سیریز بھی نہ جیت پائی، زمبابوے کے خلاف بھی نہیں (تصویر: AFP)

انگلستان کو ‘گرین واش’ کرنے والی اور موجودہ ٹیم میں بہت زیادہ تبدیلیاں نہیں ہوئی ہیں۔ وہی مصباح الحق کپتان ہیں، وہی محمد حفیظ ان کے نائب، وہی اظہر علی اور اسد شفیق اور وہی سعید اجمل، عبد الرحمٰن اور جنید خان۔ لیکن تبدیلی ہوئی ہے تو صرف کوچنگ کے معاملے میں۔ انگلستان کے خلاف اس سیریز میں کوچنگ محسن حسن خان کے پاس تھی اور تاریخی فتح کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان سے معذرت کر کے آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے مشہور کوچ ڈیو واٹمور کو کوچنگ سونپ دی۔

کوچ کی حیثیت سے ڈیو واٹمور کا پہلا امتحان دورۂ سری لنکا تھا جہاں پاکستان کے پاس یہ نادر موقع تھا کہ وہ سری لنکا کو چت کر کے عالمی درجہ بندی میں دوسری پوزیشن حاصل کرے۔ اور ایسا کرنا پاکستان کے لیے ممکن تھا بھی۔ ٹیم کے حوصلے بلند تھے، عالمی نمبر ایک کو زیر کرنے کے بعد سری لنکا کو اس کے میدانوں میں ہرانا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن واٹمور کھلاڑیوں کو استعمال کرنے میں ناکام رہے اور پاکستان سیریز ایک-صفر سے ہار گیا۔ اس کے بعد رواں سال کے اوائل میں جنوبی افریقہ کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز پاکستان کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوئی۔ پاکستان ایک اننگز میں اپنی تاریخ کے کمترین اسکور 49 رنز پر ڈھیر ہوا اور بالآخر تین-صفر کی بدترین شکست سے دوچار ہوا اور اب زمبابوے کے خلاف سیریز میں امکان تھا کہ ٹیم ٹیسٹ طرز میں اپنے اوسان کسی حدتک بحال کرے گی لیکن پہلے ٹیسٹ میں جس طرح تین دنوں تک پاکستان ٹیم بیک فٹ پر رہی، اور پھر دوسرے ٹیسٹ میچ میں شکست کھائی اس نے نہ صرف زمبابوے جیسے کمزور حریف کے خلاف بھی سیریز جیتنے سے محروم کردیا بلکہ پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں چوتھی سے چھٹی پوزیشن پر لا پھینکا ہے۔

یعنی کہ مارچ2012ء میں ڈیو واٹمور کی تقرری کے بعد سے اب تک گزرنے والے ڈیڑھ سال میں کھیلے گئے 8 میں سے پاکستان نے صرف ایک ٹیسٹ جیتا، وہ بھی زمبابوے کے خلاف، جبکہ سیریز ایک بھی نہیں جیت پایا، حتیٰ کہ زمبابوے کے خلاف بھی نہیں۔

جب واٹمور نے پاکستان کرکٹ کی کوچنگ سنبھالی تھی تو پاکستان گو کہ ٹیسٹ میں پاکستان عالمی درجہ بندی میں پانچویں پوزیشن پر تھا لیکن اس کے پاس مواقع موجود تھے۔ اسے آنے والی سیریز میں ان ثمرات کو سمیٹنا تھا جو کہ انگلستان کے خلاف تاریخی فتح کا نتیجہ تھے، لیکن پاکستان سری لنکا میں پہلی ہی منزل پر ناکام ہوا اور پھر گرتا چلا گیا۔ مسلسل 7 ٹیسٹ سیریز تک ناقابل شکست رہنے والا پاکستان واٹمور کی نگرانی میں ہارا اور اس کے بعد ہارتا ہی چلا گیا۔ کیوں؟

آج قومی کرکٹ زوال کی ایک نئی گہرائیوں میں ہے اور یہ سوال کرنے والے حق بجانب ہیں کہ بھاری بھرکم تنخواہ پر کام کرنے والے غیر ملکی کوچ کی آمد سے آخر قومی کرکٹ کی کارکردگی میں کیا فرق آیا؟ اور ڈیو واٹمور کے ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے ورنہ جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف آنے والی ہوم سیریز ان کی رخصتی کا پروانہ ثابت ہوں گی ۔