پروفیسر کی آخری کوشش!
کہتے ہیں جب برا وقت چل رہا ہو تو پھر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا ،اپنے بھی غیر ہوجاتے ہیں ۔گزشتہ کچھ عرصے سے ٹیسٹ فارمیٹ میں بدترین کارکردگی کے حامل محمد حفیظ کے ساتھ بھی آج کل کچھ ایسا ہی ہورہا ہے جنہیں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے ڈراپ کرنے کا فیصلہ کم و بیش فائنل ہوچکا ہے اوراس فیصلے نے محمد حفیظ کو بری طرح اَپ سیٹ کردیا ہے جو خراب فارم سے چھٹکارا پانے کیلئے نیٹس کا رخ کرنے کی بجائے ہر دوسرے دن میڈیا کے سامنے کھڑے ہوکر عجیب و غریب بیانات دے کر اپنی خراب کارکردگی کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
"ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کیا گیا تو سلیکٹرز سے شکوہ نہیں کروں گا"
قومی ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان محمد حفیظ کا یہ بیان آج ہر اخبار کے اسپورٹس صفحے پر نمایاں طور پر موجود ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ قومی ٹیم میں سب سے زیادہ عقلمند سمجھے جانے والے "پروفیسر" کو ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کچھ اخبارات نے لکھا ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کیلئے سلیکٹرز محمد حفیظ کو ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کرنا چاہتے ہیں اور حفیظ نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے اس قسم کا بیان دیا ہے ۔ سلیکشن کمیٹی کو ٹیم منتخب کرتے وقت ہر قسم کےدباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور اگر وہ کسی کھلاڑی کو اس کی خراب پرفارمنس کی بنیاد پر ٹیم سے باہر کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کا پورا حق حاصل ہے۔ محمد حفیظ نے گزشتہ دس ٹیسٹ اننگز میں جس طرح کی کارکردگی دکھائی ہے کیا اس کے بعد بھی انہیں کچھ امید ہے کہ سلیکٹرز انہیں ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ نہیں کریں گے۔
اپنے بیان میں محمد حفیظ نے مزید کہا کہ
"مجھے ٹیسٹ فارمیٹ میں سیٹل ہونے کیلئے صرف ایک اننگز درکار ہےلیکن سلیکٹرز کا کام پاکستان کیلئے بہترین ٹیم کا انتخاب کرنا ہے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میری ٹیم میں جگہ بنتی ہے تو مجھے منتخب کریں گے جبکہ دوسری صورت میں میں ان کا فیصلہ قبول کروں گا"
یہ بات درست ہے کہ محمد حفیظ کو ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی فارم بحال کرنے کیلئے صرف ایک اننگز ہی درکار ہے لیکن سلیکٹرز اب دس اننگز میں ناکام ہونے والے بیٹسمین کو مزید چانس دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اسی لیے ٹیسٹ ٹیم سے اپنے ممکنہ اخراج کو دیکھتے ہوئے محمد حفیظ اس قسم کے اوندھے سیدھے بیانات دے رہے ہیں جو "پروفیسر" کی عرفیت کے حامل کھلاڑی کو بالکل بھی نہیں جچتے۔محمد حفیظ نے یہ بیانات "آخری کوشش" کے طور پر دیے ہیں کہ شاید سلیکٹرز انہیں ایک اور موقع دے دیں اور محمد حفیظ یو اے ای کی بے جان وکٹوں پر ایک بڑی اننگز کھیل کر ٹیسٹ ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرلیں۔محمد حفیظ نے "دوسری صورت" میں سلیکٹرز کا فیصلہ قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔کیا محمد حفیظ کے پاس سلیکٹرز کا فیصلہ قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود ہے ؟ ناکام ترین کارکردگی کے باوجود جب سلیکٹرز نے دورہ زمبابوئے کیلئے ٹیسٹ اسکواڈ میں محمد حفیظ کو منتخب کیا تو نائب کپتان نے جس طرح یہ فیصلہ قبول کیا تھا اسی طرح انہیں اب بھی سلیکشن کمیٹی کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرنا ہوگا جس کا فیصلہ سو فیصد میرٹ پر مبنی ہوگااور ماضی کے برعکس اب حفیظ کو سلیکٹرز کا ہی فیصلہ ماننا ہوگا کیونکہ پی سی بی سے اب چوہدری ذکااشرف جیسے چیئرمین بھی رخصت ہوچکے ہیں!
جس طرح میدان کے اندر امپائر کا فیصلہ ہر صورت میں ماننا پڑتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اور اس فیصلے کو چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا (ماسوائے ریویو سسٹم کے)بالکل اسی طرح کھلاڑیوں پر لازم ہے کہ ٹیم کے انتخاب کے معاملے میں وہ سلیکشن کمیٹی کے فیصلوں کا احترام کریں اور جب وہ فیصلہ بالکل میرٹ پر مبنی ہو تو پھر مضحکہ خیز بیانات دینے کی سمجھ نہیں آتی۔ محمد حفیظ کا شمار ایسے کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے جنہیں بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے اور اسی لیے انہوں نے دبے لفظوں میں سلیکشن کمیٹی سے درخواست کی ہے کہ انہیں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں موقع دیا جائے کیونکہ خرم منظور ٹیم میں جگہ پکی کرلی ہے جبکہ تجربہ کار توفیق عمر اور عمران فرحت بھی ٹیم میں واپس آنے کیلئے پر تول رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شان مسعود بھی ہے ۔اس لیے جنوبی افریقہ کے خلاف اگر نئی اوپننگ جوڑی نے اچھی کارکردگی دکھا دی تو محمد حفیظ کی واپسی کے راستے بند ہونا شروع ہوجائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ ٹیسٹ فارمیٹ میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے حفیظ اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں کہ انہیں ڈراپ نہ کیا جائے لیکن محمد حفیظ کے یہ بیانات کوئی اچھی مثال نہیں ہے اور اگر یہ روایت چل پڑی تو پھر ہر ناکام کھلاڑی اگلی سیریز سے قبل مختلف طریقوں سے سلیکشن کمیٹی پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔
محمد حفیظ کو سلیکٹرز کے اس فیصلے کو مثبت انداز سے لینا چاہیے اور میڈیا کے سامنے زبان کا استعمال کرنے کی بجائے نیٹ پر جاکر دماغ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی خامیاں دور کرنی چاہئے تاکہ آنے والے عرصے میں وہ زیادہ بہتر بیٹسمین بن کر ٹیسٹ ٹیم میں واپس آئیں!