[باؤنسرز] چینل کا جشن اور اجمل کی معافیاں!

0 1,086

پاکستان کرکٹ بورڈ سنٹرل کانٹریکٹ کی مد میں کھلاڑیوں پر کئی پابندیاں لگاتا ہے جس میں سب سے بڑی پابندی 'زباں بندی' کی ہے اور کھلاڑی بورڈ کی اجازت کے بغیر ذرائع ابلاغ سے بات نہیں کرسکتے ۔پی سی بی نے کھلاڑیوں کو تنازعات سے بچانے کا آسان حل یہ نکالا ہے کہ وہ کھلاڑیوں اور میڈیا کے درمیان دیوار کھڑی کردے لیکن کھلاڑیوں کی تربیت کے حوالے سے پی سی بی نے کچھ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے جب بھی کھلاڑیوں کو بولنے کا موقع ملتا ہے تو وہ کچھ نہ کچھ الٹی سیدھی ہانک دیتے ہیں اور یوں اپنے لیے بڑی مشکلات کھڑی کرلیتے ہیں۔دنیا بھر کے کھلاڑی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں اور انہیں بات کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے مگر پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے کھلاڑیوں کو میڈیا سے چھپاتا پھرتا ہے۔

انٹرویوز میں کھلاڑیوں متنازع سوالات کے جواب دے کر پھنس جاتے ہیں اور بعد میں وضاحتیں پیش کرتے پھرتے ہیں (تصویر: AFP)
انٹرویوز میں کھلاڑیوں متنازع سوالات کے جواب دے کر پھنس جاتے ہیں اور بعد میں وضاحتیں پیش کرتے پھرتے ہیں (تصویر: AFP)

ویسے تو بورڈ ایک طرف کھلاڑیوں کو میڈیا سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے لیکن دوسری طرف ایک ’’مخصوص‘‘ میڈیا گروپ کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ پاکستانی کھلاڑیوں کے انٹرویوز کرسکے۔پی سی بی کے بڑے عہدیداروں کے دباؤ کے باعث کھلاڑی جیو نیوز یا سوپر کو انٹرویو دینے کیلئے مجبور ہوتے ہیں جہاں ان سے متنازع سوالات پوچھے جاتے ہیں اور جواب دینے پر کھلاڑی پھنس جاتے ہیں اور بعد میں وضاحتیں پیش کرنا پڑتی ہیں۔

گزشتہ دنوں سعید اجمل، عبدالرحمٰن اور محمد اکرم اسی میڈیا گروپ کے ایک پروگرام میں مدعو تھے جس کا آغاز تو جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کی تیاریوں اور ڈومیسٹک کرکٹ کے حوالے سے ہوا مگر دوران انٹرویو سعید اجمل سے ملکی اور غیر ملکی کوچ کے حوالے سے سوال کیا گیا تو سعید اجمل نے ’’تفصیل‘‘ میں جواب دیتے ہوئے سابق کوچز وقار یونس اور محسن خان کی کھل کر تعریف کی جبکہ ڈیو واٹمور کے بارے میں آف اسپنر کا کہنا تھا کہ ملکی اور غیر ملکی کوچ میں فرق صرف تنخواہ کا ہے اور واٹمور کی کوچنگ سے کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔اس دوران محمد اکرم نے میزبان کو منع بھی کیا کہ وہ سعید اور عبدالرحمٰن سے ایسے سوال نہ پوچھیں۔ عبدالرحمن نے بھی دبے لفظوں میں باب وولمر کو زیادہ بہتر کوچ قرار دیا۔سعید اجمل کے بیان پر اگلے دن واٹمور کا بھی ردعمل سامنے آگیا جنہوں نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا اور ردعمل میں سعید اجمل نے کوچ سے معذرت کرکے اس معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

بظاہر تو معاملہ ٹھنڈا ہوگیا ہے جس میں قصوروار سعید اجمل کو ٹھہرایا جارہا ہے لیکن درحقیقت قصور وار آف اسپنر نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور وہ میڈیا گروپ ہے جس سے پی سی بی کے نگران چیئرمین نجم سیٹھی بھی وابستہ ہیں۔

اگر کسی چینل کو اپنی سالگرہ کا’’ کیک‘‘ کھانے کا اتنا شوق ہے تو وہ شوق سے اپنا منہ میٹھا کریں لیکن اپنے اس ’’جشن‘‘ میں کھلاڑیوں کو’’کڑوے‘‘ سوالات نگلنے پر مجبور نہ کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ کرکٹ کی کوئی خدمت نہیں کررہے بلکہ کھلاڑیوں کیلئے مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔

کسی جونیئر کھلاڑی کی تو یہ خواہش ہوسکتی ہے کہ وہ ٹی وی چینل کو انٹرویو دے لیکن سعید اجمل جیسے کسی سینئر کی یہ خواہش نہیں ہوسکتی جو اس وقت شہرت کی بلندیوں پر ہے۔ سعید اجمل اور عبدالرحمٰن نے یہ انٹرویو یقیناً پی سی بی کے دباؤ اور میڈیا گروپ کی خواہش پر دیا جس میں متنازع سوالات پوچھ کر خود ان کو مشکل میں ڈالا گیا ہے جو ایک بہت اہم سیریز سے قبل اپنی توجہ کھیل پر مرکوز کرنے کے بجائے معافیاں مانگتا اور وضاحتیں پیش کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

جس رات یہ انٹرویو کیا گیا اس سے اگلے دن کھلاڑیوں کو تین روزہ پریکٹس میچ میں شرکت کرنا تھی لیکن آدھی رات کو ختم ہونے والے اس پروگرام کے بعد کھلاڑی کس وقت اپنے کمروں میں پہنچے ہوں گے،کب سوئے ہوں گے اور انہیں میچ سے قبل آرام کیلئے کتنا وقت ملا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

سعید اجمل کے متنازع بیان کا یہ واقعہ پی سی بی، کھلاڑیوں اور میڈیا کیلئے ایک سبق ہے ۔ بورڈ کو چاہیے کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے حوالے سے بھی کھلاڑیوں کی تربیت کرے تاکہ وہ مشکل بلکہ متنازع قسم کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کسی مشکل کا شکار نہ ہوںاور اس کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل میچز کے دوران رات گئے تک براہ راست انٹرویوز دینے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ کھلاڑیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ کیمرے کے سامنے ترنگ میں آکر ایسا کچھ نہ کہیں جس پر انہیں بعد میں پچھتانا پڑے جبکہ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ ان کھلاڑیوں کو سپورٹ کرے جو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور دوسرے کھلاڑیوں یا کوچز کے بارے میں رائے معلوم کرنے کی بجائے صرف اس کھلاڑی کی کارکردگی پر بات کی جائے جس کا وہ انٹرویو کررہے ہیں ۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ دور میں میڈیا ایک کھلی حقیقت ہے جس سے اب کچھ بھی چھپایا نہیں جاسکتا اور کھلاڑیوں کو میڈیا سے دور رکھنا یا متنازع بیان دینے پر انہیں شوکاز نوٹس ارسال کردینا مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے کھلاڑیوں کی تربیت کرنا از حد ضروری ہے تاکہ نہ صرف کوئی تنازع نہ کھڑا ہوسکے بلکہ کھلاڑیوں کی توجہ بھی اپنے کھیل کی جانب ہی مرکوز رہے۔