کیا 'اسپن کا جال' پروٹیز کو بے حال کر سکے گا؟

0 1,021

تین برس قبل ابوظہبی میں ابراہم ڈی ولیئرز نے پاکستان کیخلاف 278رنز کی ریکارڈ سازاننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو 584کا مجموعہ دلوادیا جس کے جواب میں پاکستان نے چار نصف سنچریوں کے سہارے 434 رنز بنا کر میچ کو ڈرا کی جانب گامزن کردیا اور دو ٹیسٹ میچز کی بدمزہ سیریز بھی برابر ی پر ختم ہوگئی۔

جنوبی افریقہ کے عالمی معیار کے بلے بازوں کو مشکل میں مبتلا کرنے کے لیے پاکستانی اسپنرز کو سازگار وکٹیں ملنا بہت ضروری ہیں (تصویر: AFP)
جنوبی افریقہ کے عالمی معیار کے بلے بازوں کو مشکل میں مبتلا کرنے کے لیے پاکستانی اسپنرز کو سازگار وکٹیں ملنا بہت ضروری ہیں (تصویر: AFP)

2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد یہ پاکستان کی پہلی سیریز تھی جس میں کپتان بھی نیا تھا جبکہ محمد حفیظ، توفیق عمر، یونس خان،محمد سمیع اور عبدالرحمٰن کی قومی ٹیم میں واپسی ہوئی تھی ۔یہ سیریز اظہر علی کے کیرئیر کی دوسری سیریز تھی اور اسدشفیق کے علاوہ عدنان اکمل نے بھی اسی سیریز میں اپنا ڈیبیو کیا تھا ۔دانش کنیریا کو منتخب ہونے کے باوجود ٹیم کیساتھ جانے سے روک دیا گیا جس کے بعد لیگ اسپنر کبھی پاکستان کیلئے نہ کھیل سکا جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں سعید اجمل کا دور عروج ابھی شروع نہیں ہوا تھا اور عبدالرحمٰن کو قابل بھروسہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔

تین سال پہلے کھیلی گئی یہ سیریز کپتان، کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈ کیلئے بھی ٹرائل کی حیثیت رکھتی تھی جس میں شکست کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد پاکستان کرکٹ زوال کی گہرائیوں میں تھی گئی جبکہ جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز کے بعد ذوالقرنین حیدر کا اچانک ٹیم کو چھوڑ کر چلے جانا مسائل میں مزید اضافہ کرگیا تھا۔

اس تمام پس منظر کے باعث پاکستان کا ٹیسٹ سیریز میں دفاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے مردہ وکٹیں بنانے کا بالکل درست فیصلہ کیا مگر اب تین سال بعد زمبابوے سے ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم پھراسی مقام پر کھڑی ہے جہاں جنوبی افریقہ کیخلاف شکست ’’افورڈ‘‘ نہیں کی جاسکتی ہے اس لیے متحدہ عرب امارات کی گرمی میں پروٹیز کو اسپن کے جال میں پھانسے کا منصوبہ بنایا جاچکا ہے اور جنوبی افریقہ کیخلاف کامیابی حاصل کرنے کا یہی ایک طریقہ کارگر ہوسکتا ہے کیونکہ اسپن بالنگ پاکستان کی سب سے بڑی مضبوطی ہے جبکہ بیٹنگ اور فاسٹ بالنگ کے شعبے میں جنوبی افریقہ کو واضح برتری حاصل ہے اس لیے پاکستانی ٹیم کو اسپن کا جال پھینکنا ہوگا تاکہ پروٹیز بیٹسمینوں کو اس جال میں پھانس کر سیریز جیتنے کے ساتھ ساتھ 6 ماہ قبل جنوبی افریقہ میں ہونے والے وائٹ واش کا بدلہ بھی چکایا جاسکے۔

سعید اجمل اور عبدالرحمٰن کیساتھ ذوالفقار بابر کی موجودگی میں پاکستان کی اسپن بالنگ کا شعبہ نہایت مضبوط بھی ہے اور اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح پاکستان نے ماضی میں دنیا کی نمبر ون ٹیم انگلینڈ کو عرب امارات کی وکٹوں پر وائٹ واش کیا تھا بالکل اسی طرح قومی ٹیم جنوبی افریقی ٹیم کو بھی ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن پروٹیز کو شکست دینے کیلئے صرف ٹیم میں تین اسپنرز منتخب کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسپن تکون کو ایسی وکٹیں بھی فراہم کرنا ہوں گی جس پر وہ جنوبی افریقی بیٹسمینوں کو اپنی انگلیوں پر نچا سکیں۔ البتہ مشکل یہ ہے کہ اگر اسپنرز کیلئے ایسی سازگار وکٹیں بنائی جاتی ہیں( جیسا کہ عام طور پر بھارت میں بنائی جاتی ہیں )تو پھر پاکستانی بیٹسمینوں کو بھی امتحان سے گزرنا ہوگا کیونکہ پاکستانی میدانوں پر اسپن بالنگ کے اسرار و رموز سیکھنے والا عمران طاہر بھی جنوبی افریقی اسکواڈ میں موجود ہے جو پاکستانی بیٹسمینوں کیلئے خطرے کی علامت ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ انگلش بیٹسمینوں کے مقابلے میں جنوبی افریقہ کے بیٹسمین اسپنرز کو کھیلنے کے معاملے میں کافی بہتر ہیں ۔ژاک کیلس، ہاشم آملہ اور ابراہم ڈی ویلیئرز پروٹیز بیٹنگ لائن کی مضبوطی ہیں اور پاکستان کی اسپن تکون کو ان بیٹسمینوں کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کیلئے صحیح معنوں میں کوئی ’’تگڑم‘‘ لگانا ہوگی جس کیلئے پاکستانی اسپنرز کو سازگار وکٹیں ملنا بہت ضروری ہیں تاکہ ان ورلڈ کلاس بیٹسمینوں کو مشکل میں مبتلا کیا جاسکے۔

اس سال ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی شکستوں کے تسلسل کو توڑنے کے لیے پاکستان کو جنوبی افریقہ کو زیر کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اعتماد حاصل کرسکے ۔ اگر پاکستانی ٹیم نے اس سیریز میں مردہ وکٹیں بنا کر سیریز ڈرا کرنے کی کوشش کی تو یہ حکمت عملی الٹی بھی پڑ سکتی ہے کیونکہ پروٹیز بیٹسمین لمبی اننگز کھیلنے کی اہلیت رکھتے ہیں جو باآسانی اسکوربورڈ پر بڑا مجموعہ سجا کر پاکستانی ٹیم کو دباؤ میں لاسکتے ہیں جبکہ جنوبی افریقہ کے فاسٹ بالرز پاکستان کے ناتجربہ کار ٹاپ آرڈر میں باآسانی دڑاریں ڈال سکتے ہیں اس لیے امارات میں 'ہوم سیریز' کیلئے مثبت حکمت عملی اپناتے ہوئے اسپن ٹریکس بنانے چاہیے جہاں پاکستانی اسپنرز اپنی گھومتی ہوئی گیندوں سے پروٹیز بیٹسمینوں کو انگلیوں پر نچا سکیں کیونکہ اگر پاکستانی ٹیم دنیا کی نمبر ون ٹیم جنوبی افریقہ کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگئی تو ناکامی کے پچھلے داغ بھی مٹ جائیں گے۔اگر اسپن وکٹیں نہ بنائی گئیں تو تاریخ خود کو ایک مرتبہ پھر دہرائے گی اور اس سیریز میں جنوبی افریقی بیٹسمین ریکارڈز قائم کریں گے اور سیریز ڈرا کرکے پاکستانی ٹیم واپس اسی مقام پر چلی جائے گا جہاں سے اس کا سفر تین برس پہلے شروع ہوا تھا۔