جوابی دورے میں ’’تگڑا‘‘ جواب دینا ہوگا

2 1,043

غالباً اس سے اچھا موقع پاکستانی ٹیم کو کبھی بھی نہیں ملا کہ وہ جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے سیریز جیت سکے لیکن چوتھے ون ڈے کی شکست کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ 2002-03ء کے بعد شاید پہلی مرتبہ پاکستانی ٹیم4-1کے مارجن سے شکست کھا جائے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ پاکستانی کھلاڑی آخری میچ میں دباؤ سے آزاد ہونے کے بعد سیریز کا خاتمہ جیت کے ساتھ کریں اور پھر ٹی20سیریز اپنے نام کرکے شائقین کرکٹ کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کریں۔

’’اسٹار‘‘ کھلاڑیوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، اب گیند سلیکشن کمیٹی کے کورٹ میں ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے (تصویر: Cricnama)
’’اسٹار‘‘ کھلاڑیوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، اب گیند سلیکشن کمیٹی کے کورٹ میں ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے (تصویر: Cricnama)

رواں سال پاکستانی ٹیم دو مرتبہ پروٹیز کے ہاتھوں سیریز کی شکست سے دوچار ہوچکی ہے مگر چند دن بعد جنوبی افریقہ کے جوابی دورے پر پاکستانی ٹیم شکست کا بدلہ لے سکتی ہے لیکن اس دورے میں تگڑا جواب دینے کے لیے گرین شرٹس کو تگڑی کارکردگی بھی دکھانا ہوگی جس کے لیے کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کو بھی سخت اور تگڑے فیصلے کرنا ہونگے۔

محمد حفیظ نے یقینی طور پر اپنے ون ڈے کیرئیر کا آخری میچ نہیں کھیلا کیونکہ چار میچز میں 25.50کی اوسط سے رنز بنا نے والے ’’پروفیسر‘‘ نے 42.33 کی اوسط کیساتھ تین وکٹیں بھی حاصل کی ہیں، اس لیے ایسی آل راؤنڈ ’’پرفارمنس‘‘ دے کر حفیظ کو جنوبی افریقہ کے جوابی دورے کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ آل راؤنڈر کی مسند پر براجمان ایک اور سینئر کھلاڑی شاہد آفریدی نے پہلے چار میچز میں 17.75کی عمدہ اوسط سے آٹھ وکٹیں کی مضبوط کارکردگی دکھائی ہے لیکن مایہ ناز کھلاڑی آل راؤنڈر کی تعریف پر پورا نہیں اترتا جس نے اس سیریز میں چار مرتبہ کریز پر جاتے ہوئے 44رنز بنائے لیکن شاہد آفریدی بھی جنوبی افریقہ کے جوابی دورے پر جانے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ خوف کی چادر اوڑھے ہوئے سلیکشن کمیٹی کے اراکین کسی اسٹار پلیئر کو ڈراپ کرنے کا ’’جرم ‘‘ نہیں کرسکتے اور پھر شاہد آفریدی اس ملک کے سب سے بڑے اسٹار ہیں جو بیٹنگ میں بھلے کچھ نہ کریں لیکن ہم ان کے نام کے ساتھ لگا ’’مایہ ناز آل راؤنڈر‘‘ کا ٹیگ نہیں ہٹاسکتے کیونکہ جب وسیم اکرم جیسے عظیم کھلاڑی کو ’’پالتو‘‘ ماہرین سے معافی نہیں مل سکتی تو پھر ہم بھلا ہماری حیثیت کیا ہے۔

عمر اکمل کووکٹ کیپنگ کے دستانے اس لیے تھمائے گئے تھے کہ وہ مستند بیٹسمین ہونے کے ساتھ ساتھ وکٹ کیپنگ بھی کرسکتے ہیں اس لیے سب سے چھوٹے اکمل کی یہ دوہری صلاحیت پاکستانی ٹیم کے توازن کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی تھیں لیکن ون ڈے سیریز میں عمر اکمل نے خود کو ایسا وکٹ کیپر ثابت کیا جو تھوڑی بہت بیٹنگ بھی کرسکتا ہے جس کا اعلان چار اننگز میں بنائے گئے 65رنز چیخ چیخ کر کررہے ہیں۔

ورلڈ کپ سیمی فائنل میں پانچ وکٹوں کا ’’پنجہ‘‘ لگانے والے وہاب ریاض کو پچھلے دو برسوں سے ون ڈے میچز میں بیٹسمینوں کی جانب سے ’’پانجا‘‘لگ رہا ہے جو آخری 21میچز میں سے دس مرتبہ فی اوور چھ سے زائد رنز دے چکا ہے اور پاکستان کی طرف سے دس اوورز میں سب سے زیادہ رنز دینے کا ’’اعزاز‘‘ بھی ’’وکی‘‘ کو حاصل ہے مگر اس کے باوجود وہاب ریاض مستقل طور پر پاکستانی ٹیم کا حصہ ہے جس کی ’’پرچی‘‘ بھی کافی تیز ہے اور مجھے یقین ہے کہ رواں سیریز میں 14اوورز کے دوران 72رنز دے کر وکٹ سے محروم رہنے والے وہاب ریاض کو بھی بیٹنگ کی ’’اضافی‘‘ صلاحیت کی بدولت پروٹیزکیخلاف جوابی سیریز کھیلنے کا موقع ضرور ملے گا۔

پاکستان کے ان ’’اسٹار‘‘ کھلاڑیوں کی پرفارمنس سب کے سامنے ہے جس سے سلیکشن کمیٹی بھی نظریں نہیں چرا سکتی۔ اب گیند سلیکشن کمیٹی اور پی سی بی کے چیئرمین کے کورٹ میں ہے جنہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کب تک بڑے ناموں، سفارشوں اور دباؤ تلے دب کر ایسے فیصلے کرتے رہیں گے جو پاکستان کرکٹ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

پاکستان کی اس شکست نے مایوس ضرور کیا ہے لیکن ہر اندھیری رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور آتی ہے اور جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز میں صہیب مقصود کی عمدہ اور بے خوف بیٹنگ سے امید کی ایک کرن ضرور دکھائی دی ہے۔ پاکستانی ٹیم کے یہ ’’سورما‘‘ اب انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنے دن پورے کررہے ہیں جن سے اب کسی مہم جوئی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی جو فیلڈ میں کپتان سے اختلاف کرکے اور کیچز چھوڑنے کے بعد ٹیڑھی میڑھی شکلیں بنا کر ہی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش ہی کرسکتے ہیں۔

صہیب مقصود کی طرح حارث سہیل بھی بے پایاں صلاحیتوں کا حامل بیٹسمین ہے ۔علی وقاص، شرجیل خان بھی ایسے ہی بے خوف کھلاڑی ہیں ،عمر امین اور اسد شفیق کو بھی اعتماد دینے کی ضرورت ہے جو لمبی ریس کے گھوڑے ہیں ۔راولپنڈی کا جمال انور اور پشاور کا محمد رضوان قدرتی صلاحیتوں کے حامل نوجوان وکٹ کیپرز ہیں۔عمر وحید اور محمد نواز جیسے نوجوان ون ڈے کرکٹ کے لیے آئیڈیل ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں اب بھی صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن پی سی بی میں دلیرانہ فیصلے کرنے والوں کی کمی ہے۔

پروٹیز کے جوابی دورے پر’’ تگڑا‘‘ جواب دینے کے لیے ٹیم میں ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت نہیں ہے جو اپنی جگہ پکی کرنے کے لیے کھیلیں بلکہ ایسے نوجوان مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کا حصہ بنانا ہوگا جن میں جیت کی بھوک اور اپنی ٹیم کے لیے کچھ کردکھانے کا جذبہ موجود ہو!