کپتانی ہے یا فوجی وردی؟
پاکستانی ٹیم جونیئر اور سینئر کھلاڑیوں کا ایسا 'بھان متی کا کنبہ' بن چکی ہے کہ جن کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے کہ جو یہ بات بخوبی جانتا کہ کس طرح نئے کھلاڑیوں کو سمجھا جائے، متحرک رکھا جائے، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی صلاحیتوں کو بروقت استعمال کیا جائے۔ نیز یہ کہ کرکٹ ایک "ٹیم گیم" ہے، اس میں کامیابی کا دارومدار فرد واحد پر نہیں بلکہ ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر ہے۔
پاکستانی ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ ٹیم کے موجودہ کپتان مصباح الحق 2010ء سے پاکستانی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں۔قیادت سنبھالنے سے قبل انہوں نے محمد یوسف کی کپتانی میں جنوری 2010ء میں ٹیسٹ کھیلا اور پھر ٹیم سے باہر ہوگئے ۔ بعد ازاں 9 ماہ بعد انہیں نہ صرف ٹیم میں واپس لایا گیا بلکہ قیادت کا تاج بھی پہنا دیا گیا۔ اس وقت انہیں کپتان بنائے جانے کے حوالے سے جو سوالات اٹھے، انکا جواب مصباح نے اپنی کارکردگی کے ذریعے دیا لیکن جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی حالیہ سیریز میں ذلت آمیز شکست کے بعد ان کی قائدانہ اہلیت پر دوبارہ سوال اٹھنے لگے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کا پہلا معرکہ پاکستان نے خرم منظور اور مصباح الحق کی سنچری اننگز کی بدولت جیتا لیکن یہاں مصباح کی قائدانہ صلاحیتوں کے بجائے ان کی اچھی بیٹنگ کام آئی۔ پاکستان کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر ایک اور عالمی نمبر ون کو متحدہ عرب امارات میں زیر کرتا لیکن مصباح کی 'مشہور زمانہ' دفاعی انداز کی قیادت نے پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میں ایک اننگز اور 92 رنز کی بدترین شکست سے دوچار کیا، باوجود اس کے کہ یہاں دوسری اننگز میں اسد شفیق نے سنچری اور مصباح نے 88 رنز بنائے تھے۔
پھر اس کے بعد ایک روزہ سیریز میں مصباح کی قیادت میں پے در پے شکستوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ دو چار ہاتھ لب بام رہ جانے والا معاملہ کئی مرتبہ پیش آیا اور اس کی وجہ شکست کے باوجود ٹیم میں بنیادی تبدیلیاں نہ کرنا، ناکام بلے بازوں کو ایک ہی پوزیشن پر مسلسل استعمال کرنا اور رنز دینے والے گیندبازوں کو بارہا ایک ہی اینڈ سے استعمال کرنا شامل ہیں، جو ان کی قیادت کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان کے سب سے مستند اور ان فارم بلے باز کی حیثیت سے مصباح کو چاہیے تھا کہ وہ تیسرے نمبر پر آتے اور ٹیم کو 'فرنٹ سے لیڈ' کرتے ہیں لیکن دفاعی حکمت عملی کا کیا کیجیے کہ انہوں نے اپنی جگہ تو تبدیل نہ کی بلکہ معاملے کو یہاں تک پہنچا دیا کہ وہ اس وقت بھی میدان میں اترے جب پاکستان چار کھلاڑیوں سے محروم ہو چکا تھا۔
چوتھے ون ڈے میں شکست اور سیریز گنوا بیٹھنے کے بعد مصباح الحق اور ٹیم انتظامیہ کے پاس موقع تھا کہ وہ پانچویں ایک روزہ مقابلے میں تجربات کرتے، حفیظ کو باہر بٹھاتے، آفریدی کو اوپر کھلاتے، اسد شفیق اور دیگر کھلاڑیوں کو موقع دیتے لیکن ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے یہ امید ہو کہ پاکستان میچ جیتنے کی کوشش کر رہا ہے۔ واحد مقابلہ جو پاکستان جیت سکا، وہ سعید اجمل اور شاہد آفریدی کی بدولت ہی بدولت ہی ملا ورنہ احمد شہزاد کے علاوہ دیگر تمام بلے باز تو اس مقابلے میں بھی ناکام ٹھہرے تھے۔ یوں 4-1 کی بدترین شکست نے پاکستان کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی۔
مصباح الحق کے مدح سراؤں کا کہنا ہے کہ وہ قیادت کے اہل ہیں کیونکہ ان کی کارکردگی میں تسلسل ہے اور انہوں نے سال 2013ء میں سب سے زیادہ رنز بنائےہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مصباح کو زیادہ تسلسل کے ساتھ کھیلنے کا جتنا موقع حاصل ہوا، اتنا کسی اور کھلاڑی کو نہیں دیا گیا ۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے بازوں میں دوسرا نام محمد حفیظ کا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ان کی حالیہ کارکردگی کو پس پشت ڈال کر انہیں نائب کپتان برقرار رکھا جائے؟ اور اگر ایک لمحے کے لیے صرف رنز بنانے ہی کو کپتان بننے یا بنے رہنے کا معیار مان لیا جائے تو پھر روہیت شرما یا ویراٹ کوہلی کو بھارت کا کپتان ہونا چاہیے جو مسلسل بھارت کی جانب سے رنز بنا رہے ہیں۔
خود غرضی کی انتہا دیکھیں کہ ٹیم کی شکست پر یہ کہہ کر اپنا دامن بچایا جاتا ہے کہ میں نے تو رنز کیے ہیں، باقی بیٹسمین نہيں کر رہے تو میں کیا کروں؟ تو اس رصیے کے بعد کوئی ملک ایسے کھلاڑی کو قیادت کے لیے موزوں نہیں سمجھے گا۔ مصباح کے حالیہ بیانات میں طنزیہ انداز میں یہ تک کہا گیا کہ 'تو میں کیا کروں؟ آؤٹ ہونے کے بعد دوبارہ بیٹنگ کرنے چلا جاؤں؟'کیا یہ بیان دنیا کے کسی بھی کپتان کو زیب دیتا ہے؟ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصباح اتنے بے بس کپتان ہیں کہ "شیر" ہوتے ہوئے بھی اپنی ٹیم سے "گیدڑوں" کو باہر نہیں نکال سکتے؟
مصباح الحق بارہا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ قیادت سے دستبردار نہیں ہون گے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی قیادت کا معاملہ بالکل وہی صورت اختیار کرچکا ہے جیسا کہ ماضی قریب میں سابق آمر پرویز مشرف کی "فوجی وردی" کا معاملہ کرگیا تھا۔ جس طرح مشرف صاحب فوجی وردی اترنے کو اپنے دور حکومت کا خاتمہ سمجھتے تھے، بالکل ویسے ہی مصباح بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ کپتانی گئی تو ٹیم میں جگہ بھی نہیں ملے گی۔
بلاشبہ، مصباح پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ کا اہم ستون ہیں اور اننگز کو چاروں شانے چت ہونے سے بچانے میں ان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ کی بھلائی کا خواہاں کوئی بھی فرد، جو میدان میں موجود ہو یا باہر بیٹھا ہوا ہو، کبھی نہیں چاہے گا کہ موجودہ صورتحال میں مصباح ٹیم سے باہر ہوں۔ اس لیے مصباح کو بھی چاہیے کہ وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کریں کہ ان کی طاقت کا راز کپتانی نہیں بلکہ ان کی مستند بیٹنگ ہے۔
یونس خان، شاہد آفریدی، محمد حفیظ اور عبد الرزاق کی طرح وہ بھی ثابت کریں کہ وہ نئے کپتان کی قیادت میں کھیلنے پر رضامند ہیں اور یقین جانیں اس سے مصباح کے وقار میں مزید اضافہ ہوگا۔