جنوبی افریقہ سیریز جیت گیا، ژاک کیلس کے شایان شان الوداع
تاریخ کے عظیم ترین آل راؤنڈرز میں سے ایک ژاک کیلس کو الوداعی ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ نے شایان شان کارکردگی دکھاتے ہوئے 10 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرلی۔ یوں نہ صرف ڈربن ٹیسٹ بلکہ سیريز بھی ایک-صفر سے اپنے نام کی۔ اس شاندار فتح میں خود ژاک کیلس کا بڑا حصہ تھا جنہوں نے پہلی اننگز میں 115 رنز کی سب سے بڑی باری کھیلی جبکہ جنوبی افریقی فتح کے حقیقی معمار ڈیل اسٹین تھے جنہوں نے ایسے موقع پر 6 وکٹیں حاصل کرکے کھیل کا پانسہ پلٹا، جب بھارت مکمل طور پر حاوی تھا۔
کنگزمیڈ، ڈربن میں ہونے والے سیریز کے دوسرے و آخری ٹیسٹ میں بھارت نے پہلی اننگز میں صرف ایک وکٹ پر 198 رنز جوڑے، لیکن اس کے بعد اسٹین کی شاندار باؤلنگ کا سامنا نہ کرسکا۔ پھر اس کی اپنی باؤلنگ بھی اتنی بے دم ثابت ہوئی کہ جنوبی افریقہ واحد بڑی اننگز میں 500 رنز جڑنے میں کامیاب ہوگیا، جس میں کیلس کی سنچری اور دیگر بلے بازوں کی اہم اننگز تو ایک طرف لوئر مڈل آرڈر میں ڈیل اسٹین 44، فف دو پلیسی 43 اور رابن پیٹرسن 61 رنز کی شاندار باریاں کھیل گئے۔
چوتھے روز کے اختتام تک بھارت مقابلہ برابر کرنے اور سیریز بچانے کی بہترین پوزیشن میں تھا، لیکن آخری دن ایک مرتبہ پھر ڈیل اسٹین اینڈ کمپنی کی تباہ کن باؤلنگ اور خود بھارتی کھلاڑیوں کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ نے شکست کو یقینی بنا دیا ۔ بھارت آخری روز اپنی دوسری اننگز میں صرف 223 رنز پر ڈھیر ہوا اور جنوبی افریقہ نے ملنے والا صرف 58 رنز کا ہدف بارہویں اوور میں بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے پورا کرلیا۔
جوہانسبرگ میں، جہاں بھارت سنسنی خیز مقابلے کے بعد خدا خدا کرکے مقابلہ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا، یہاں ڈربن میں وہ کافی بہتر حالات سے دوچار رہا۔ کچھ مدد وقفے وقفے سے ہونے والی بارش بھی پوری کرتی رہی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو جس طرح کا آغاز میسر آیا، اس نے بالکل بھی اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔
اندازہ لگائیے کہ پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر بھارت کی صرف ایک وکٹ گری تھی، جب مرلی وجے اور چیتشور پجارا نے شاندار بیٹنگ کے ذریعے بھارت کو 181 رنز تک پہنچا دیا تھا۔
لیکن دن بدلتے ہی بھارت کے نصیب بھی بدل گئے۔ دوسرے روز پجارا 70 اور مرلی 97 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو سوائے ویراٹ کوہلی کے 46 اور اجنکیا راہانے کے ناقابل شکست 51 رنز کے، کسی بلے باز کے بیٹ سے کوئی اچھی اننگز نہ نکل سکی۔ روہیت شرما، رویندر جدیجا اور ظہیر خان تو صفر پر ہی پویلین سدھارے اور بھارت کی پہلی اننگز 334 رنز پر تمام ہوگئی۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلے دن بھارت نے بلے بازی کا جو طاقتور مظاہرہ کیا تھا، اس کے بعد جنوبی افریقہ کو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا اور وہ معجزہ تھا ڈیل اسٹین کی شاندار باؤلنگ اور جنوبی افریقہ کی مشہور زمانہ ناقابل یقین فیلڈنگ۔ جس کی بدولت تاخیر سے شروع ہونے والے دوسرے دن میں وہ چائے کے وقفے تک ہی بھارت کے آدھے کھلاڑیوں کو میدان بدر کرچکا تھا اور بالآخر بھارت کو 334 رنز پر جا لیا۔ بھارت کی آخری 9 وکٹیں صرف 136 رنز کے اضافے سے گریں۔
ڈیل اسٹین نے 6 جبکہ مورنے مورکل نے 3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک وکٹ ژاں-پال دومنی کو ملی۔
باؤلنگ کے ناقابل یقین مظاہرے کے بعد مقابلے کو برابری کی سطح پر لانے کا کارنامہ جنوبی افریقی اوپنرز الویرو پیٹرسن اور کپتان گریم اسمتھ نے انجام دیا جنہوں نے پروٹیز کو سنچری آغاز فراہم کیا۔ اسمتھ نے 81 گیندوں پر 47 رنز بنائے اور ان کے آؤٹ ہونے کے بعد جنوبی افریقہ ایک لمحے کے لیے لڑکھڑا گیا۔ کچھ ہی دیر میں پیٹرسن 62 اور ہاشم آملہ صرف 3 رنز بنانے کے بعد میدان سے واپس آ چکے تھے۔
اس موقع پر آخری ٹیسٹ کھیلنے والے ژاک کیلس اور وکٹ کیپر ابراہم ڈی ولیئرز نے اننگز کو سنبھالا دیا اور چوتھی وکٹ پر 127 رنز جوڑکر بھارت کو باقی پورے دن میں صرف ایک مزید وکٹ حاصل کرنے دی۔ ڈی ولیئرز دن کے اختتامی لمحات میں جدیجا کی تیسری وکٹ بنے۔ انہوں نے 117 گیندوں پر 74 رنز بنائے جبکہ کیلس دوسرے اینڈ سے ڈٹے رہے۔ جب تیسرا دن ختم ہوا تو کیلس 78 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔
چوتھے دن پہلے سیشن میں کیلس نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی 45 ویں اور آخری سنچری 273 گیندوں پر مکمل کی جس میں 13 چوکے شامل تھے۔ بھارت کھانے کے وقفے سے قبل کیلس کی وکٹ تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن جنوبی افریقہ کی ٹیل بھارت کی طرح نکمی نہیں تھی، اس نے خوب کام کیا اور جب تک اسکور 500 رنز تک نہ پہنچا تب تک ہمت نہ ہاری۔ اسٹین کے 44، دو پلیسی کے 43 اور ان دونوں سے بڑھ کر رابن پیٹرسن کے 61 رنز سے اس مجموعے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھارت کی جانب سے جدیجا نے 6 وکٹیں حاصل کیں جبکہ ظہیر خان نے دو اور محمد شامی نے ایک کھلاڑی کوآؤٹ کیا۔
اب ڈیڑھ دن کا کھیل بھی باقی نہ بچا تھا اور بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ دیکھتے ہوئے نتیجے کا امکان کم ہی تھا لیکن چوتھے دن کے خاتمے سے قبل دو وکٹوں کا نقصان جنوبی افریقہ کو امید کی کرن دکھا گیا۔ سب سے پہلے مرلی وجے صرف 6 رنز بنانے کے بعد سلپ میں کیچ دے گئے اور پھر شیکھر دھاون 19 رنز بنانے کے بعد اس وقت رابن پیٹرسن کے ہاتھوں آؤٹ ہوئےجب مجموعہ صرف 53 رنز تھا۔ فف دو پلیسی نے ان کا انتہائی ناقابل یقین کیچ اور بلاشبہ میچ کا سب سے بہترین کیچ لیا۔
بھارت نے آخری دن کے کھیل کی شروعات 68 رنز پر دو کھلاڑی آؤٹ پر کی اور اور دن کا آغاز ہی بدشگونی ثابت ہوا۔ دن کی پہلی ہی گیند پر ویراٹ کوہلی ڈیل اسٹین کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے آؤٹ قرار پائے۔ کیونکہ بھارت کی منشاء کے مطابق اس سیریز میں امپائروں کے فیصلوں پر نظرثانی کا نظام (ڈی آر ایس) لاگو نہیں کیا گیا تھا اس لیے کوہلی کو وکٹ چھوڑتے ہی بنی حالانکہ گیند ان کے بلے کے بجائے کندھے سے چھوتے ہوئے گئی تھی۔
اہم ترین مہرہ کھسکانے کے بعد اسٹین نے ایک انتہائی خوبصورت گیند پر چیتشور پجارا کو کلین بولڈ کردیا۔ بھارت کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے تھے۔ حال ہی میں ون ڈے میں ڈبل سنچری کا کارنامہ انجام دینے والے روہیت شرما ایک مرتبہ پھر ناکام ثابت ہوئے اور فلینڈر کی ایک اندر آتی ہوئی گیند پر وکٹوں کے سامنے دھر لیے گئے۔
یوں بھارت صرف 104 رنز پر آدھی بیٹنگ لائن سے محروم ہوچکا تھا۔ اس مرحلے پر بھارت کو ضرورت تھی دفاعی کھیل پیش کرکے میچ بچانے کی، لیکن جتنی زیادہ ضرورت تھی اتنے ہی غیر ذمہ دارانہ شاٹس کھیل کر اگلے دو بلے باز آؤٹ ہوئے، جن میں سے ایک بھارت کے قائد دھونی تھے۔ وہ مڈوکٹ پر ایک 'لالی پاپ' کیچ تھما کر ٹیم کی کشتی کو بیچ منجدھار میں چھوڑ گئے جبکہ ان کے منظور نظر رویندر جدیجا بھی ٹی ٹوئنٹی اننگز کھیلنے کی کوشش میں اپنی وکٹ طشتری میں رکھ کر پیش کرگئے۔ جدیجا نے اسی اوور کی پہلی گیند پر کپتان کو پویلین لوٹتے دیکھا تھا، لیکن اس کے باوجود آنے والی چار گیندوں میں سے ایک پر انہوں نے رابن پیٹرسن کو چھکا رسید کیا اور اس کے بعد اسی شاٹ کو دہرانے کی کوشش میں مڈ آف پر مورنے مورکل کو کیچ تھما گئے۔ یہ بھارت کی ساتویں وکٹ تھی جو ایک اینڈ کو مکمل طور پر غیر محفوظ کرگئی۔
اجنکیا راہانے، جو گزشتہ اننگز میں بھی ایک اینڈ پر وکٹیں گرتے دیکھتے رہے، یہاں ایک مرتبہ پھر اسی صورتحال سے دوچار تھے۔ بھارت 223 رنز سے آگے نہ جا سکا اور یوں جنوبی افریقہ کو سیریز جیتنے کے لیے صرف 58 رنز کا ہدف ہی مل سکا۔
رابن پیٹرسن نے 4 قیمتی وکٹیں حاصل کیں جبکہ تین، تین وکٹیں فلینڈر اور اسٹین کو ملیں۔
جنوبی افریقہ نے برق رفتاری سے اس ہدف تک رسائی حاصل کی اور یوں ثابت کردیا کہ حقیقی عالمی نمبر ایک کون ہے؟ جوہانسبرگ میں بھی جنوبی افریقہ 4 دن تک مقابلے میں پچھلے قدموں پر رہا اور پھر اچانک ایسا واپس آیا کہ تقریباً مقابلہ جیت گیا، بس قسمت نے اس سے یاوری نہ کی لیکن یہاں ڈربن میں اس نے ثابت کردیا کہ عالمی نمبر دو بھارت کا اس سے کوئی مقابلہ نہیں۔
یوں جنوبی افریقہ نے گزشتہ چار سالوں سے کسی بھی ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ برقرار رکھا۔
ڈیل اسٹین کو 9 وکٹیں حاصل کرنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ ڈی ولیئرز وکٹوں کے آگے اور پیچھے دونوں مقامات پر کارکردگی کی بدولت سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔