مان گئے استاد!!

4 1,138

شارجہ ٹیسٹ میں چار دن تک سری لنکا کا پلڑا بھاری رہا لیکن پانچویں دن کے آخری دو سیشنز میں پاکستان نے 302 رنز کا ہدف حاصل کرکے درحقیقت معجزہ کردیا کیونکہ پاکستان کے بلے بازوں سے کسی کو یہ توقع نہ تھی کہ محتاط انداز سے کھیلنے والے کھلاڑی 5 رنز فی اوور سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ اتنا بڑا ہدف حاصل کرکے ایک تاریخی کامیابی کشید کریں گے۔ اس لیے یادگار فتح پر پوری ٹیم بالخصوص کپتان مصباح الحق کو شاندار خراج تحسین پیش کرنا ہوگا۔ ’’کیپٹن کول‘‘ نے نہ صرف متحدہ عرب امارات میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ برقرار رکھا بلکہ ساتھ ساتھ کوچ ڈیو واٹمور کو بھی فتح کے تحفے کے ساتھ رخصت کیا۔

پاکستان کا متحدہ عرب امارات میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ بھی برقرار رہا اور کوچ ڈیو واٹمور بھی یادگار فتح کے ساتھ رخصت ہوئے (تصویر: AFP)
پاکستان کا متحدہ عرب امارات میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ بھی برقرار رہا اور کوچ ڈیو واٹمور بھی یادگار فتح کے ساتھ رخصت ہوئے (تصویر: AFP)

گزشتہ تحریر میں میں نے لکھا تھا کہ ابتدائی تین دنوں تک پاکستان کی طرف سے کوئی منصوبہ بندی نہیں دکھائی دی بلکہ دونوں ٹیمیں سست روی سے کھیل کر میچ کو ڈرا کی جانب لے جا رہی ہیں اور اگر پاکستان نے چوتھے روز غیر معمولی کارکردگی نہ دکھائی تو 12 سال کے عرصے میں متحدہ عرب امارات میں پہلی بار پاکستان کو سیریز شکست ہوسکتی ہے۔ پاکستانی باؤلنگ کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس میں اتنا دم خم نہيں کہ وہ سری لنکا کو دوسری باری میں کم اسکور پر آؤٹ کرسکے اور پھر یہی ہوا کہ سری لنکا نے پاکستان کے کھیل کے آخری دو سیشنز میں جیتنے کے لیے 302 رنز کا ہدف دیا۔ صرف 59 اوورز میں اتنا بڑا ہدف کسی بھی وکٹ پر کسی بھی بیٹنگ لائن کے لیے آسان نہیں مگر پاکستانی اوپنرز مثبت ذہن اور جیت کے عزم کے ساتھ میدان میں اترے۔ احمد شہزاد نے ابتدائی حملے کیو تو سری لنکن ٹیم دفاع پر کاربند ہوگئی جس کی وجہ سے پاکستانی بلے بازوں کو سنگلز لینے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ اگرچہ دونوں اوپنرز کے ساتھ پاکستان کو یونس خان کی قیمت وکٹ بھی گنوانا پڑی مگر چائے کے وقفے سے قبل سرفراز احمد کو پانچویں نمبر پر بھیجنا مقابلے کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔سیریز میں ایک ففٹی بنانے کے باوجود سرفراز کی بیٹنگ پر اتنا زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاتا مگر دباؤ کی صورتحال میں سرفراز نے جس دلیری کے ساتھ سری لنکا کے منفی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا، وہ قابل تعریف ہے۔ جنہوں نے آخری سیشن میں 35 اوورز میں 195 رنز کے تعاقب کے لیے اظہر علی کے ساتھ مل کر ناممکن کو ممکن بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ ’’ سیفی‘‘ کے 48رنز بہت قیمتی ثابت ہوئے، اور سری لنکا کے سب سے اہم باؤلر رنگانا ہیراتھ کے خلاف ان کی جارح مزاجی کی وجہ سے سری لنکا مزید دفاع پر مجبور ہوا۔

میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے اظہر علی نے بلاشبہ تاریخ رقم کردی۔ پہلے دو ٹیسٹ میچز میں باہر بٹھائے جانے کے بعد ٹیم میں واپسی اور پہلی اننگز میں ناکامی کے بعد ’’اجو‘‘ پر اپنی اہلیت ثابت کرنے کا دباؤ تھا اور انہوں نے ایک ایسی بروقت اور شاندار سنچری بنائی جسے انضمام الحق کی بنگلہ دیش کے خلاف ملتان ٹیسٹ 2003ء کی سنچری کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ گزشتہ تحریر میں لکھا تھا کہ پاکستان کی بیٹنگ لائن اس قابل نہیں کہ پانچویں دن 250 کے لگ بھگ مجموعے کا تعاقب کرسکے لیکن پاکستانی بیٹنگ لائن نے کل میرے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔ اس غیر معمولی کارکردگی میں اظہر علی کا کردار اہم ترین تھا جبکہ کپتان مصباح نے ہمیشہ کی طرح اپنا کردار نبھاتے ہوئے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔

پاکستان نے پہلے دو مقابلوں میں دفاعی حکمت عملی اختیار کی اور تجربے کی جو ناکام ہونے کے بعد آخری مقابلے میں درست کمبی نیشن میدان میں اترا، محمد طلحہ اور عبد الرحمٰن نے اپنی واپسی کو ثابت کرکے دکھایا جبکہ سب سے بڑا فرق اظہر علی کی واپسی تھا۔

یہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا محض دوسرا موقع ہے کہ قومی ٹیم 300 سے زیادہ رنز کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کرسکی ہو اور اس فتح نے پاکستان کرکٹ کو اچانک بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ شائقین کو یقین ہوگیا ہے کہ اگر یہ ٹیم کچھ کر دکھانے کا عزم کرلے تو پھر اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کی یہ کامیابی اس لیے بھی بھلی معلوم ہورہی ہے کہ پاکستان نے اس میں مثبت کرکٹ کھیلی، جس کا اثر ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی دکھائی دے گا۔ اس مقابلے نے بطور کپتان مصباح الحق کے مستقبل کو بھی محفوظ بنا دیا ہے اور ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ ’’مان گئے استاد!!‘‘