کیا پاکستانی تماشائی بنگلہ دیشی شائقین سے کچھ سیکھیں گے؟
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اب عروج کو پہنچ چکا ہے۔ کرکٹ کی مختصر ترین طرز کی دو بہترین ٹیمیں بھارت اور سری لنکا، جو عالمی درجہ بندی میں بھی سرفہرست ہیں، کل شام کو ڈھاکہ میں عالمی اعزاز کے لیے مدمقابل آئیں گی۔ جیتے چاہے کوئی بھی لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی کے بعد اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی ٹرافی بھی ایشیا ہی میں آئے گی۔
لیکن ....... پاکستان کے شائقین کے لیے یہ ٹورنامنٹ اسی روز ختم ہوگیا جب گروپ 2 کے آخری مقابلے میں پاکستان ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست کھا کر باہر ہوا۔ بقول شخصے کرکٹ بخار 102 ڈگری سے گرکر یکدم منفی 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔پھر یہاں جتنی بے دلی کے ساتھ سیمی فائنل مقابلے دیکھے گئے، ایسا لگتا ہے کہ فائنل شاید اس سے بھی زیادہ عدم دلچسپی کا نشانہ بنے۔
دراصل ٹورنامنٹ میں پاکستان کے شائقین کو پہلا دھچکا تب لگا، جب قومی ٹیم روایتی حریف بھارت کے خلاف مقابلہ ہاری۔ 130 رنز کا معمولی مجموعہ اکٹھا کرنے کے بعد باؤلرز بھی بھارتی بیٹسمینوں کو نکیل نہ ڈال سکے۔ نتیجہ شکست کی صورت میں نکلا۔ گو کہ آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے خلاف دو شاندار فتوحات نے پاکستان کی امیدیں برقرار رکھیں لیکن دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست کے ساتھ ہی گرین شرٹس کا سفر تمام ہوا۔ اور تب سے پاکستانی شائقین 'کاٹو تو لہو نہیں' والی صورتحال میں ہیں۔
پاکستانی کرکٹ پرستاروں کو بنگلہ دیش کے تماشائیوں سے سیکھنا چاہیے۔ جس جوش و ولولے کے ساتھ انہوں نے اپنی قومی ٹیم کی حمایت کی، یہاں تک کہ بنگلہ دیش اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا لیکن آخری مقابلے تک، جو لاحاصل تھا، ہزاروں کی تعداد میں تماشائی میدان میں آئے اور اپنے بلے بازوں کی جانب سے لگائے گئے ہر چوکے اور چھکے اور باؤلرز کی ہر وکٹ کا بھرپور لطف اٹھایا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کے دوران یہ واضح نظر آیا کہ بنگلہ دیشی شائقین صرف اپنے ملک کو نہیں بلکہ بحیثیت کرکٹ کے کھیل کو بہت پسند کرتے ہیں۔ مقابلہ چاہے آئرلینڈ اور نیدرلینڈز جیسے حریفوں کا ہی کیوں نہ ہو یا پھر نیوزی لینڈ-جنوبی افریقہ اور پاکستان-آسٹریلیا مدمقابل ہوں، میدان ہمیشہ تقریباً بھرے ہوئے ہی نظر آئے۔ ان مقابلوں میں بھی صرف تماش بین کی حیثیت نہیں بلکہ بھرپور تیاریوں کے ساتھ شرکت کی۔ جیسا کہ پاکستان کے ابتدائی مقابلوں میں اسٹینڈز میں سبز رنگ کی بہار تھی، جنوبی افریقہ کے میچز میں کئی منچلے افریقی قبائلی باشندوں کا روپ دھارے ہوئے نظر آغے۔ پھر سیمی فائنل مقابلوں میں ویسٹ انڈیز، سری لنکا، بھارت اور جنوبی افریقہ کو تماشائیوں کی جانب سے جیسی سپورٹ ملی، ایسے نظارے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کیا پاکستانی تماشائی کرکٹ کو کھیل کی حیثیت سے پسند نہیں کرتے؟ کیا وہ صرف جیت کے لیے کرکٹ دیکھتے ہیں؟ اگر آپ بھی ایسا کرتے ہیں تو اپنے رویے پر غور کیجیے اور اچھا کھیلنے والے کو داد دیجیے۔