[باؤنسرز] بھارت... دنیائے کرکٹ کا مہاجن!

1 1,096

’’بگ تھری‘‘ نے جس دن سے آئی سی سی کو یرغمال بنایا ہے اس دن سے عالمی کرکٹ کی تباہی کا بھی آغاز ہوگیا ہے کیونکہ بھارت کی سربراہی میں کرکٹ کے ان ’’تین بدمعاشوں‘‘ نے آئی سی سی کو غیر موثر کرتے ہوئے عالمی کرکٹ میں جنگل کا قانون نافذ کردیا ہے جس میں طاقت وروں کو تو سب کچھ ملے گا جبکہ چھوٹے ملکوں کو صرف ’’بچے کچھے‘‘ پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔

بھارت کی پاکستان کے خلاف چھ سیریز بھی حکومتی اجازت سے مشروط، یعنی نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی (تصویر: AFP)
بھارت کی پاکستان کے خلاف چھ سیریز بھی حکومتی اجازت سے مشروط، یعنی نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی (تصویر: AFP)

’’بگ تھری‘‘ کی منصوبہ بندی بھارتی بورڈ کی اختراع ہے جس نے عالمی کرکٹ پر قبضہ کرنے کے لیے انگلینڈ اور آسٹریلیا کو اپنے ساتھ ملایااور یہ تینوں ملک عالمی کرکٹ کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ میں اس سے قبل بھی کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ ’’بگ تھری‘‘ کے بننے کے بعد کرکٹ کا کھیل قانون کے تابع ہونے کی بجائے طاقت ور اور کمزور ملکوں میں بٹ کر رہ جائے گا ۔ فیوچر ٹورز پروگرام ختم ہونے کے بعد اب مستقبل کی کرکٹ کا فیصلہ بھی ’’بگ تھری‘‘ کی مرضی سے ہوگا کہ ان تین ممالک کو جہاں سے مالی فائدہ ہوگا، یہ اسی کے ساتھ کھیلیں گے جبکہ دیگر ممالک کو بڑی ٹیموں کے ساتھ کھیلنے کا موقع میسر نہیں آئے گا۔ بھارت بین الاقوامی کرکٹ کو سب سے زیادہ منافع دینے والی ملک ہے اور اپنی اسی حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ کچھ دن قبل آئی سی سی کو بھی دھمکی دے ڈالی تھی کہ اگر کرکٹ کی عالمی گورننگ باڈی کو بھارت کے تابع نہ کیا گیا تو پھر بھارتی کرکٹ بورڈ آئی سی سی کے متوازی ادارہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔

بھارت کی انہی دھمکیوں کے نتیجے میں میچ فکسنگ کے الزامات میں جکڑے ہوئے شری نواسن طمطراق کے ساتھ آئی سی سی کے چیئرمین بن گئے۔ عالمی کرکٹ کا کرتا دھرتا بننے کے بعد بھارت اگلے آٹھ سال تک زیادہ ٹیسٹ میچز انگلینڈ اور آسٹریلیا کے علاوہ جنوبی افریقہ کے ساتھ کھیلے گا جبکہ پاکستان کے ساتھ چھ سیریزوں کا شیڈول حکومت کی اجازت سے مشروط ہے، یعنی نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی!

اگلے آٹھ برسوں میں یعنی 2015ء سے 2023ء تک انگلینڈ اور بھارت کے درمیان مجموعی طور پر پانچ ٹیسٹ میچز پر مشتمل ہوم اینڈ اَوے کی بنیاد پر چار ٹیسٹ سیریز کھیلی جائیں گی جس میں مجموعی طورپر دونوں ٹیمیں 20ٹیسٹ میچز میں مدمقابل ہوں گی ۔بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیمیں چار ٹیسٹ میچز پر مشتمل چار سیریز میں 16ٹیسٹ کھیلیں گی جبکہ جنوبی افریقہ کو بھارت کے خلاف 12ٹیسٹ یعنی تین ٹیسٹ میچز پر مشتمل چار سیریز ملی ہیں۔ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کو ان کی ’’حیثیت‘‘ کے مطابق دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز بخشی گئی ہیں اور اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے ’’بھاگ‘‘ جاگ گئے ہیں جواگلے برس بھارت میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کھیلنے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کرے گی۔

اس بندر بانٹ نے بھارت کو عالمی کرکٹ کا ’’مہاجن‘‘ ثابت کردیا ہے اور جن ملکوں نے بھرپور انداز میں ’’بگ تھری‘‘ کی حمایت کی تھی وہ یقیناً اب اپنی قسمت کو کوسنے دے رہے ہوں گے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ اول دن سے ہی تین بڑوں کے قدموں میں بیٹھا ہوا ہے جبکہ سری لنکا نے بھی جلد ہی ہتھیار ڈال دیے تھے مگر ماضی میں بھارت کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے والے یہ دونوں ملک اگلے آٹھ برس بھارت کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز ہی کھیل سکیں گے۔ ہاں، اور جنہوں نے آئی سی سی اجلاس کے بعد شری نواسن سے بغل گیر ہوتے ہوئے غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا تھا، جو ’’ساہوکار‘‘ کے آگے خود کو جھکاکر شائقین کو بھارت سے باہمی سیریزوں، اربوں روپے کی آمدنی اور ’’ دیوانے‘‘ کے دیگر خواب دکھا رہے ہیں، ان کی بات پھر کبھی سہی۔