سری لنکا سے بدترین شکست، انتظامی بحران کا ’’آفٹر شاک‘‘
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی کے لیے کئی ماہ تک جاری رہنے والی جنگ نے پاکستان کرکٹ کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس کے ’’آفٹر شاکس‘‘ اب تک آرہے ہیں۔ تازہ ترین جھٹکا سری لنکا میں ملنے والی وہ عبرتناک شکست ہے، جس نے عالمی درجہ بندی میں پاکستان کو چھٹے نمبر پر پہنچا کر قومی کرکٹ کو مزید پستیوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔
جب کولمبو ٹیسٹ کے چوتھے روز دوسرے سیشن سے پہلے سری لنکن اننگز اختتام کو پہنچی تھی، تو سابق بلے باز رسل آرنلڈ نے سوالیہ انداز میں ٹویٹ کیا تھا کہ’’کیا ٹیسٹ میچ آج ختم ہوجائے گا؟‘‘۔ جواب میں انہیں پاکستانیوں کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخری سیشن میں سات وکٹیں گنوا کر پاکستان نے ثابت کیا کہ رسل کا سوال غلط نہیں تھا۔ اسی سیشن سے مقابلہ سری لنکا کے حق میں پلٹ گیا اور سیریز بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئی۔
اس مرتبہ سری لنکا میں پاکستان سے جس ’’شان‘‘ کے ساتھ بدترین ریکارڈز کو گلے لگایا ہے، اس پر نوحہ ہی لکھا جاسکتا ہے کیونکہ ایسی شرمناک کارکردگی پر تجزیہ کرنا اور تبصرہ لکھنا ناممکن ہے۔ تاریخ میں صرف دوسری بار پاکستان دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں کلین سویپ کی خفت سے دوچار ہوا۔ اتفاق سے یونس خان ان دونوں بدقسمت ٹیموں کا حصہ تھے جبکہ وقار یونس پہلی سیریز میں کپتان اور موجودہ ٹیم میں ہیڈ کوچ کے عہدے پر فائز رہے۔
گال میں جب پاکستان کو شکست ہوئی تو یہ دونوں ٹیموں کے اس سے قبل کھیلے گئے آخری ٹیسٹ سے بہت مشابہ مقابلہ تھا۔ جس طرح پاکستان نے شارجہ میں چوتھی اننگز میں عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے کھیل کے اختتامی لمحات میں کامیابی حاصل کی تھی بالکل اسی طرح سری لنکا نے گال میں بارش شروع ہونے سے ایک گیند پہلے جیت کو گلے لگایا۔ پاکستان کی پوری ٹیم وہی تھی جس نے شارجہ ٹیسٹ میں حصہ لیا تھا مگر ایک میچ میں غیر معمولی انداز میں کامیابی حاصل کرنے والے کھلاڑی اگلے مقابلے میں بری طرح شکست کے گڑھے میں جا گرے۔ کپتان، کھلاڑی سب وہی تھے مگر فرق صرف کوچ کا تھا۔ جسے غیر ملکی ہونے کے طعنے بھی دیے گئے اور اس کے سات ٹیسٹ میچز کے کیریئر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔
بہرحال ، ٹیم انتظامیہ کی طرف کہ گزشتہ چیئرمین نجم سیٹھی نے معین خان کو دہری ذمہ داری دینے کے ساتھ ساتھ وقار یونس کو ہیڈ کوچ کا عہدہ تھمایا اور ان کے دوست مشتاق احمد کے لیے اسپن باؤلنگ کا نیا عہدہ تخلیق کیا گیا اور بیٹنگ سدھارنے کے لیے گرانٹ فلاور کی خدمات مستعار لی گئیں۔ اگر معین خان کے تجربے کو بھی شامل کرلیا جائے تو اس چوکڑی کا مجموعی طور 275 ٹیسٹ میچز کا ہے جبکہ ان میں سے دو اپنے ملکوں کی کپتانی بھی کر چکے ہیں مگر سری لنکا میں ان کا تمام تر تجربہ صفر ثابت ہوا۔ جنہیں بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ لایا گيا تھا کہ یہ مایہ ناز کوچز ٹیم کی قسمت بدل دیں گے، اپنی پہلی ہی سیریز میں بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔
خاص طور پر اس سیریز میں رنگانا ہیراتھ نے پاکستان کے بلے بازوں کو جو تگنی کا ناچ نچایا، اسے دیکھتے ہوئے تو کہیں سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ غیر ملکی بیٹنگ کوچ نے پاکستان کے بلے بازوں کو کوئی سبق یاد کروایا ہوگا۔ اگر باقی بیٹسمین سرفراز احمد کے کھیلنے کے انداز کا بغور جائزہ لیتے تو کچھ افاقہ ہوسکتا تھا کہ جنہوں نے ہیراتھ کے خلاف اگلے قدموں پر کھیلنے کی تکنیک آزمائی جبکہ دیگر بیٹسمین کبھی پچھلے قدموں پر اور کبھی قدم ہلائے بغیر کھیلنے کے جرم میں اپنی وکٹیں گنواتے رہے۔
باؤلنگ میں سعید اجمل ہر گزرتے دن کے ساتھ بے ضرر سے ہوتے جا رہے ہیں جبکہ عبد الرحمٰن کو کمنٹیٹرز’’عام سا باؤلر‘‘قرار دیتے رہے جس میں وکٹ لینے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر ’’مشی‘‘ نے اپنے ہونٹ سی لیے ہیں اور یہی حال دوسرے کوچز کا ہے۔
کپتان کو بھی اس کلین سویپ پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ انگلینڈ کو ان کے گھر میں ہرانے والے سری لنکا سے شکست کھانا شاید ان کے لیے’’اعزاز‘‘ کی بات ہے۔ کھلاڑی بھی ایک اچھی اننگز کھیل کر ٹیم میں اپنی جگہ بچا لیتے ہیں کہ انہیں اگلی سیریز مل جائے گی اور کچھ کھلاڑیوں کو تو وہ درجہ حاصل ہے کہ کسی صورت انہیں نکالا ہی نہیں جا سکتا۔ جب تک یہ رویہ تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک فتوحات تک توقع لگانا فضول ہے۔