انگلستان نے آخری ایک روزہ جیت لیا، سیریز 1-3 سے بھارت کے نام
انگلستان بھارت کے خلاف پوری سیریز میں کوئی سنچری شراکت داری نہ بنا سکا، اور مڈل آرڈر نے جیسے ہی اپنی اس خامی پر قابو پایا، ایک دل کو تسلی دینے والی جیت کا حقدار ٹھیرا۔ جو روٹ اور جوس بٹلر کے مابین 81 گیندوں پر 108 رنز کی شاندار رفاقت اور جو روٹ کی دوسرے ون ڈے سنچری نے بالآخر انگلستان کو کامیابی نصیب کی لیکن سیریز تین-ایک سے بھارت ہی کے نام رہی، جو ابتدائی مقابلے کے بارش کی نذ رہوجانے کے بعد تینوں میچز میں باآسانی فتحیاب رہا اور سے اسی مارجن سے سیریز جیتا، جس سے اسے ٹیسٹ سیریز میں شکست ہوئی تھی، یعنی تین-ایک!
مقابلے کے دو لمحات ایسے تھے جنہوں نے انگلستان کو غالب حریف بنایا۔ ایک ابتدائی مشکلات کے بعد بیٹنگ پاور پلے میں جو روٹ اور جوس بٹلر کی دھواں دار بیٹنگ، دوسرا بھارت کے ٹاپ آرڈر کو باآسانی ڈھیر کردینا۔ بھارت کی دعوت پر پہلے بیٹنگ ملنے کے بعد ابتدائی 7 اوورز ہی میں انگلستان جدوجہد کرتا دکھائی دیا۔ ایلکس ہیلز ایک مرتبہ پھر ناکامی کا منہ دیکھنے پر مجبور ہوئے جبکہ معین علی کو تیسرے نمبر پر بھیجنے کا تجربہ بھی ناکام رہا۔ انگلش بلے باز پہلے سے ہی دباؤ کا شکار تھے، مزید دبتے چلے گئے یہاں تک کہ 20 اوور میں ایلسٹر کک نصف سنچری سے پہلے ہی دھر لیے گئے۔ تین اہم وکٹیں گرجانے کے بعد انگلستان کے رنز بنانے کی رفتار تھم گئی۔ اگلے 9 اوورز میں صرف 26 رنز آئے۔ جس کا اہم سبب ایون مورگن کی روی چندر آشون کے خلاف جدوجہد تھی۔ مورگن آشون کے خلاف 19 گیندوں پر صرف دو رنز بنا پائے اور بالآخر انہی کے ہاتھوں آؤٹ بھی ہوئے۔ 34 گیندوں پر 14 رنز کی یہ مایوس کن اننگز مورگن کے ساتھ ساتھ انگلش بیٹنگ لائن کے مسائل کو بھی ظاہر کررہی تھی۔ ایک بڑے مجموعے تک پہنچنے کی امیدیں دم توڑتی جارہی تھیں کہ جو روٹ اور جوس بٹلر نے اننگز کو سنبھالا۔
پہلے اننگز کو استحکام بخشنے کے بعد انہوں نے بیٹنگ پاور پلے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا، جس میں دونوں نے بغیر وکٹ کے نقصان کے 55 قیمتی رنز حاصل کیے۔ اگر 49رنز بنانے کے بعد بٹلر بری طرح رن آؤٹ نہ ہوتے تو شاید بھارتی باؤلرز کو آخری اوورز میں کہیں جائے پناہ نہ ملتی لیکن بٹلر بدقسمتی سے دو چھکے اور 5 چوکے لگانے کے بعد بہت بری طرح رن آؤٹ ہوئے۔
لیکن اس کے باوجود بھارت کے باؤلرز جو روٹ کو نہیں روک پائے جو آج اپنے ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک روزہ کیریئر کی دوسری سنچری مکمل کی اور 108 گیندوں پر تین چھکوں اور 10 چوکوں سے مزین 113 رنز کی باری کھیلنے کے بعد میدان سے فاتحانہ انداز میں واپس آئے۔ یہی وہ اننگز تھی جس کا انگلستان کو پوری سیریز میں انتظار تھا، لیکن بدنصیبی کہیے کہ اس مقابلے میں سامنے آئی جب انگلستان سیریز گنوا چکا تھا۔ بہرحال، روٹ اور بٹلر کے بعد بین اسٹوکس کی 23 گیندوں پر 33 رنز کی اننگز نے انگلستان کو 294 رنز تک پہنچا دیا۔ جو ایسا مجموعہ تھا جو بھارت باآسانی حاصل نہ کرسکتا تھا۔
بھارت کی جانب سے رویندر جدیجا اور امیش یادیو سب سے مایوس کن کارکردگی دکھانے والے گیندباز تھے۔ روی کو 9 اوورز میں 66 رنز کی مار پڑی جبکہ اس میچ میں کھیلنے والے یادیو کو 6 اوورز میں 46 رنز سہنے پڑے۔ البتہ یادیو کو ایک وکٹ ضرور ملی جبکہ جدیجا وہ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے۔ سب سے زیادہ وکٹیں محمد شامی کو ملیں جنہوں نے اپنے 10اوورز میں 52 رنز دیے۔ ایک، ایک وکٹ بھوونیشور کمار، روی چندر آشون اور سریش رینا نے حاصل کی۔
ایک مشکل ہدف کا تعاقب اس وقت مزید کٹھن ہوگیا جب پہلے ہی اوور میں گزشتہ مقابلے کے مرد میدان اجنکیا راہانے صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ رہی سہی کسر ویراٹ کوہلی کے 13 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہونے سے پوری ہوگئی۔ ان دونوں کو جمی اینڈرسن نے ٹھکانے لگایا جبکہ اسکور بورڈ پر صرف 25 رنز موجود تھے۔ گزشتہ مقابلے میں بھارت کو منزل تک پہنچانے والے شیکھر دھاون بھی صرف 31 رنز بنا پائے۔ بھارت 14 اوورز میں صرف 49 رنز کے ساتھ ان تینوں وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔
اب سریش رینا نے امباتی رایوڈو نے جو روٹ اور جوس بٹلر والا کردار ادا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے 42 رنز ضرور جوڑے لیکن رنز بنانے کی رفتار بہت دھیمی تھی۔ یہاں معین علی نے بھارت کو دوسرا بڑا دھچکا پہنچایا جب انہوں نے رینا کو وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کرایا تو بھارت کی اننگز تہرے ہندسے میں بھی نہیں پہنچی تھی۔ رینا نے 23 گیندوں پر 18 رنز بنائے اور
رایوڈو کی اننگز نصف سنچری مکمل ہونے کے بعد کچھ دیر بعد اختتام کو پہلی جو 65 گیندوں پر 53 رنز بنانے کے بعد بین اسٹوکس کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ امباتی رایوڈو نے ایک مرتبہ پھر نصف سنچری کا ہندسہ عبور کیا لیکن اس کے فوراً بعد ہی دھر لیے گئے۔ اس وقت بھارت کو 118 گیندوں پر 163 رنز کے مشکل ہدف کا سامنا تھا اور اس کے آدھے بلے باز میدان بدر ہوچکے تھے۔ بیٹنگ پاور پلے اس فرق کو کم کرنے کا سنہرا موقع تھا لیکن کپتان مہندر سنگھ دھونی کا آؤٹ ہونا بھارت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوا۔ بھارت ان پانچ اوورز میں صرف 27 رنز بنا پایا، اور ایک قیمتی وکٹ بھی گنوائی۔
رویندر جدیجا نے آخر میں بہت کوشش کی کہ معاملے کو سنبھالیں، لیکن دھونی کا ساتھ چھوٹ جانے کے بعد ان کے لیے تن تنہا اس صورتحال سے میچ کو نکالنا ناممکن تھا۔ بہرحال انہوں نے 68 گیندوں پر 87 رنز کی عمدہ اننگز کے ذریعے کوشش بہت کی۔ یہاں تک کہ 49 ویں اوور میں ان کی صورت میں بھارت کی آخری وکٹ بھی گرگئی۔ یوں انگلستان نے تین مسلسل شکستوں کے بعد آخری مقابلہ 41 رنز سے جیت لیا ۔
انگلستان کی جانب سے بین اسٹوکس نے 47 رنز دے کر سب سے زیادہ تین وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو، دو کھلاڑیوں کو اینڈرسن، معین اور اسٹیون فن نے آؤٹ کیا۔
جو روٹ میچ اور سریش رینا سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔
سیریز میں مایوس کن شکست عالمی کپ کی تیاریوں میں انگلستان کے لیے سخت دھچکا ثابت ہوئی ہے کیونکہ عالمی کپ ہی اس وقت تمام ٹیموں کا بنیادی ہدف ہے۔ آخری مقابلے میں جیت کسی حد تک زخموں کا مداوا ضرور بنے گی اور آئندہ میچز کے لیے حوصلے بڑھائے گی۔ انگلستان کو اپنی ٹیسٹ کارکردگی کو ایک روزہ میں بھی دہرانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے اہم بہترین دستے کا انتخاب ہے۔
انگلستان کے لیے اگلی مہم دورۂ سری لنکا ہوگا جس کے بعد وہ آسٹریلیا میں سہ فریقی سیریز کھیلے گا۔