"چھپڑ پھاڑ کے"، پاکستان کا آسٹریلیا کے خلاف کلین سویپ

7 1,283

ٹھیک تین سال پہلے پاکستان کرکٹ تاریخ کا شرمناک ترین دن تھا جب سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو دورۂ انگلستان میں اسپاٹ فکسنگ میں سزا بھگتنے کے بعد برطانیہ کی عدالت نے دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے مقدمے میں قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ شاید ہی کوئی پاکستانی ہو، جس کا سر شرم سے جھک نہ گیا ہو لیکن آج تین سال بعد مصباح الحق کی زیر قیادت پاکستانی دستے نے آسٹریلیا کے خلاف کلین سویپ کرتے ہوئے اس ملک کے ہر باسی کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ابوظہبی میں 356 رنز کے ریکارڈ مارجن سے حاصل کی گئی جیت نے پاکستان کو ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے مقام پر بھی پہنچا دیا ہے۔ یہ دو سال قبل انگلستان کے خلاف متحدہ عرب امارات کے انہی میدانوں پر حاصل کردہ جیت کے بعد مصباح کی زیر قیادت پاکستان کی دوسری یادگار ترین فتح ہے۔

ابوظہبی میں پاکستان کے تمام کھلاڑیوں نے جتنی جامع کارکردگی پیش کی، اجتماعی و انفرادی دونوں سطحوں پر انعامات بھی اتنے ہی حاصل کیے۔ پاکستان نے کسی بھی ٹیم کے خلاف رنز کے حساب سے اپنی سب سے بڑی فتح حاصل کی، عالمی درجہ بندی میں تیسرے درجے پر پہنچا، 20 سال بعد آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتی، 32 سال بعد آسٹریلیا کے خلاف کلین سویپ کیا، پھر یونس خان کی ڈبل سنچری کے ساتھ آسٹریلیا کے خلاف تہرے ہندسے کی مسلسل تیسری اننگز، مصباح الحق کا تیز ترین نصف سنچری اور تیز ترین سنچری کا ریکارڈ، مصباح الحق اور اظہر علی کی ایک ہی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانا اور مصباح کا پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ فتوحات، یہ سب ایک بھرپور ٹیم ورک کا نتیجہ تھا۔ بلے بازوں کے علاوہ گیندبازوں خاص طور پر ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ نے بہت ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ قریبی پوزیشنوں پر کھڑے فیلڈرز کی پھرتی بھی کام آئی۔

دبئی میں 221 رنز کی شاندار فتح حاصل کرنے کے بعد پاکستان نے ابوظہبی میں بھی ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور سلسلے کو وہیں سے جوڑا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ 96 رنز تک دونوں اوپنرز کو گنوانے کے بعد پاکستان نے اظہر علی اور یونس خان کی 236 رنز کی زبردست رفاقت کی بدولت مقابلے پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ یونس خان نے آسٹریلیا کے خلاف اپنی پہلی ڈبل سنچری مکمل جبکہ اظہر علی 109 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ اس مقام پر مصباح اور یونس نے مزید 181 رنز کا اضافہ کرکے آسٹریلیا کی رہی سہی امیدوں کا بھی خاتمہ کردیا۔ کیریئر کی پانچویں ڈبل سنچری بنانے کے بعد یونس 349 گیندوں پر 213 رنز کے ساتھ آؤٹ ہوئے جبکہ مصباح الحق ان سے کچھ پہلے 101 رنز کی اننگز کے ساتھ پویلین لوٹے۔ پاکستان نے پہلی اننگز 6 وکٹوں پر 570 رنز کے ساتھ ڈکلیئر کی۔

پاکستانی بلے بازوں نے اس مجموعے کو حاصل کرنے کے لیے جتنا وقت لیا، اور بجائے اننگز جلد ڈکلیئر کرنے کے مزید کھیل جاری رکھا، اس سے یہی اندازہ ہورہا تھا کہ پاکستان میچ میں صرف ایک اننگز کھیلنے کا خواہشمند ہے لیکن بعد میں یہ اندازہ غلط ثابت ہوا کیونکہ پاکستان نے آسٹریلیا کو فالوآن پر بھی مجبور نہیں کیا اور دوبارہ بلے بازی سنبھالی۔ بہرحال، آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 8 گیندباز آزمائے لیکن چلا پھر بھی کوئی نہیں۔ مچل اسٹارک کو 2 اور مچل جانسن، پیٹر سڈل اور اسٹیون اسمتھ کے علاوہ ناتھن لیون نے ، ایک، ایک وکٹ ضرور حاصل کی لیکن ایک ایسی وکٹ پر جہاں بعد ازاں پاکستانی اسپنرز چھا گئے، آسٹریلیا کے اسپنرز خاص طور پر لیون ایک مرتبہ پھر بری طرح ناکام ہوئے۔ ان کے 37 اوورز میں پاکستانی بلے بازوں نے 4.16 کے اوسط سے 154 رنز لوٹے جبکہ گلین میکس ویل کے 16 اوورز میں بھی 78 رنز اسکور ہوئے۔

تقریباً دو روز تک فیلڈ میں خوار ہونے کے بعد آسٹریلیا کے بلے بازوں کا 'تگنی کا ناچ' دوبارہ شروع ہوگیا۔ پہلے تو اسپن گیندبازوں کے سامنے جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے تھے لیکن ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں تو آدھا کام تیز باؤلز ہی نے کردیا۔ عمران خان اور راحت علی نے پہلے دونوں دونوں اوپنرز کو ٹھکانے لگایا اور 100 رنز تک پہنچتے پہنچتے آسٹریلیا 5 وکٹوں سے محروم کردیا۔ ان میں سے صرف وکٹ ہی پاکستانی اسپنر ذوالفقار بابر کے ہاتھ لگی جبکہ باقی بلے بازوں پر عمران اور راحت نے ہاتھ صاف کیا۔

باقی بلے بازوں میں سے صرف مائیکل کلارک اور مچل مارش ہی قابل ذکر مزاحمت کرسکے لیکن ان کی سر توڑ کوشش بھی آسٹریلیا کو فالو آن سے نہ بچا سکی۔ کلارک 47 رنز بنانے کے بعد عمران خان کی ایک خوبصورت گیند پر بولڈ ہوئے۔ مچل مارش نے 116 گیندوں پر 87 رنز بنا کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا۔ انہوں نے نویں وکٹ پر پیٹر سڈل کے ساتھ اسکور میں 62 رنز کا اضافہ کیا البتہ جیسے ہی آؤٹ ہوئے آسٹریلیا کی اننگز 261 رنز پر مکمل ہوگئی۔

عمران خان نے 60 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو، دو وکٹیں ذوالفقار بابر، راحت علی اور یاسر شاہ کو ملیں۔ ایک کھلاڑی کو محمد حفیظ نے آؤٹ کیا۔

پاکستان نے آسٹریلیا کو فالو آن پر مجبور کرنے کے بجائے اسے مقابلے کی دوڑ سے مکمل طور پر باہر کرنے کی ٹھانی اور دوبارہ بیٹنگ سنبھالی۔ اوپنرز آغاز ہی میں دغا دے گئے لیکن 309 رنز کی برتری دیگر بلے بازوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے کافی تھی۔ پہلی اننگز میں آسٹریلیا کے باؤلرز کو رلانے والے اظہر علی اور یونس خان دوسری اننگز میں بھی عمدگی سے کھیلے اور 131 رنز کا اضافہ کرکے پاکستان کی برتری کو 461 رنز تک پہنچا دیا، جو آسٹریلیا کی گزشتہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تو کافی سے زیادہ تھی لیکن مصباح محفوظ مقام کے متلاشی تھے اور ایسے مجموعے پر ڈکلیئر کرنا چاہتے تھے کہ وہاں سے آسٹریلیا کے جیتنے کے امکانات 0.0001 فیصد بھی نہ رہیں۔ اس کے لیے پاکستان کو تیز کھیلنے کی ضرورت تھی اور سرفراز احمد کو میدان میں اتارنے کے بجائے مصباح نے اس ذمہ داری کو خود اپنے کاندھوں پر لیا۔ انہوں نے پہلے 21 گیندوں پر تیز ترین نصف سنچری کا عالمی ریکارڈ قائم کیا اور پھر محض 56 گیندوں پر سنچری مکمل کرکے ویوین رچرڈز کا 28 سال پرانا تیز ترین سنچری کا ریکارڈ بھی برابر کردیا۔ مصباح 57 گیندوں پر 101 رنز بنانے کے ناقابل شکست میدان سے لوٹے، ان کی اننگز میں 11 چوکے اور 5 شاندار چھکے شامل تھے۔ ان کی اس اننگز نے دوسرے اینڈ سے اظہر علی کو دوسری اننگز میں بھی سنچری بنانے کا آسان موقع فراہم کیا جو 174 گیندوں پر سنچری مکمل کرنے کے بعد سرخرو میدان سے واپس آئے۔ دونوں کھلاڑیوں نے صرف 102 گیندوں پر 141 رنز کی ناقابل شکست شراکت داری قائم کرکے اسکور کو 293 رنز تک پہنچا دیا اور آسٹریلیا کو 603 رنز کا ہدف دیا۔

اتنے بڑے ہدف کے بوجھ تلے آسٹریلیا کا سانس لینا بھی دوبھر تھا، اس لیے وہ چوتھے دن کے خاتمے سے پہلے ہی چار کھلاڑیوں سے محروم ہوگیا۔ کرس راجرز کی ناکامیوں کا سلسلہ مزید دراز ہوا اور ایک مرتبہ پھر دہرے ہندسے میں پہنچنے سے پہلے آؤٹ ہوگئے۔ گلین میکس ویل ٹیسٹ دستے میں اپنی شمولیت کے فیصلے کو درست ثابت نہ کرسکے اور صرف 4 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئے جس کے بعد ذوالفقار بابر نے مائیکل کلارک کو بولڈ کرکے آسٹریلیا کے مڈل آرڈر کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ ان تینوں کی وکٹیں' ذولفی' نے حاصل کیں۔ ڈیوڈ وارنر نے اسٹیون اسمتھ کے ساتھ مل کر مجموعے کو تہرے ہندسے میں پہنچایا۔ وارنر 58 رنز بنانے کے بعد محمد حفیظ کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے اور آسٹریلیا نے چوتھے دن کا خاتمہ 4 وکٹوں پر 143 رنز کے ساتھ کیا۔ اسے میچ جیتنے کے لیے مزید 460 رنز کی ضرورت تھی، جسے حاصل کرنا تقریباً ناممکنات میں سے تھا اور اس کا واحد انتخاب ڈرا کے لیے کھیلنا ہی ہوسکتا تھا۔

آخری روز اسٹیون اسمتھ اور مچل مارش نے قابل ذکر مزاحمت کی۔ پاکستان پہلے سیشن میں مچل مارش کی وکٹ ہی حاصل کر پایا جو 47 رنز بنانے کے بعد محمد حفیظ کی دوسری وکٹ بنے۔ لیکن پاکستانی گیندباز پرانی گیند پر اسٹیون اسمتھ کے خلاف غیر موثر دکھائی دے رہے تھے، لیکن جیسے ہی کھانے کے وقفے کے بعد نئی گیند ملی، صرف 8 رنز کے اضافے سے پاکستان نے آخری 5 وکٹیں کھڑکا دیں۔ اسمتھ 97 رنز بنانے کے بعد یاسر شاہ کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے اور پھر 246 رنز پر تمام کھلاڑی آؤٹ ہوگئے۔

ذوالفقار بابر نے ایک مرتبہ پھر شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ تین وکٹیں یاسر شاہ کو ملیں۔ دو کھلاڑیوں کو محمد حفیظ نے آؤٹ کیا۔ یوں آسٹریلیا کی تمام وکٹیں اسپنرز کے ہاتھ لگیں۔

پاکستان نے آخری بار 1994ء میں سلیم ملک کی زیر قیادت آسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی اور اس کے بعد سے آج تک کبھی کینگروز کو زیر نہیں کر پایا تھا۔ آسٹریلیا کے خلاف قومی ٹیم کی حالت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1999ء سے لے کر 2010ء تک پاکستان کو مسلسل 11 ٹیسٹ مقابلوں میں آسٹریلیا سے شکست ہوئی۔ لیکن اس کے بعد ہونے والے تینوں ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان نے فتوحات حاصل کی ہیں۔

شاندار بلے بازی پر مصباح الحق کو میچ اور یونس خان یونس خان کو دو ٹیسٹ مقابلوں میں 468 رنز بنانے پر سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ خود پر ہونے والی بے جا تنقید کا ان دونوں کھلاڑیوں نے بہت خوبی سے جواب دیا ہے۔ ان دونوں کو اگلے ماہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں مزید مواقع ملیں گے۔