جنوبی افریقہ اور کیلے کا چھلکا
گزشتہ تقریباً 20 سالوں ہر عالمی کپ میں مضبوط ترین امیدوار کی حیثیت سے کھیلنے والا جنوبی افریقہ ایک مرتبہ پھر ناک-آؤٹ مرحلے میں ہے یعنی یہ وہ "کیلے کا چھلکا" جس پر پھسلنا ہی پڑے گا۔
عالمی کپ 2015ء سے پہلے بلند و بانگ دعووں کے باوجود پہلا مرحلہ جنوبی افریقہ کے لیے مثالی نہیں رہا۔ اسے گروپ میں دونوں اہم حریفوں پاکستان اور بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اب برصغیر میں کرکٹ کی تیسری بڑی قوت سری لنکا پہلے کوارٹر فائنل میں اس کے مدمقابل ہے۔ یہی وہ حریف ہے جس نے 1992ء میں پہلی بار ٹکراؤ میں اسے شکست دی تھی اور پھر 2003ء میں جب جنوبی افریقہ اپنے ہی میدانوں پر عالمی کپ کھیل رہا تھا تو سری لنکا کو شکست دینے میں ہی ناکامی نے اسے اکھاڑے سے باہر پھینکا تھا۔ اب تمام پرانے بدلے چکانے کا تاریخ کا رخ بدلنے کا وقت ہے اور دیکھتے ہیں جنوبی افریقہ اس بار کیا کارنامہ دکھاتا ہے۔ کوچ رسل ڈومنگو تو بہت پرامید ہیں اور کہتے ہیں کہ سری لنکا کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے وہ "چوکرز" کا داغ ہمیشہ کے لیے مٹا دیں گے۔
رسل ڈومنگو کہتے ہیں کہ یہ وہ داغ ہے، جو جنوبی افریقہ سے بری طرح چپک گیا ہے۔ چاہے ہم کہیں بھی کھیل رہے ہوں، ہم سے اس بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں اور ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ماضی میں کئی مواقع ہم نے ہاتھوں سے گنوائے ہیں۔ اس لیے اب تاریخ کو بدلنا چاہتے ہیں اور پوری توجہ صرف اور صرف اچھی کرکٹ کھیلنے پر رکھیں گے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اس پر دھیان نہیں دینا چاہتے۔"
جنوبی افریقہ جب بھی عالمی کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچا ہے، پہلے ہی مقابلے ميں اسے شکست ہوئی ہے۔ 1992ء میں بارش کے قانون کی وجہ سے اسے انگلستان کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ پھر 1996ء میں ویسٹ انڈیز جیسے کمزور حریف کے ہاتھوں اسے کوارٹر فائنل میں شکست ہوئی۔ 1999ء میں سیمی فائنل پہلا ناک آؤٹ مقابلہ تھا جہاں جنوبی افریقہ بازی جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور میچ ٹائی ہونے کی وجہ سے عالمی کپ سے باہر ہوگیا۔ پھر 2003ء میں بارش کی وجہ سے ڈک ورتھ لوئس طریقے کے مطابق درکار رنز کا درست حساب کتاب نہ کرپانے کی وجہ سے مقابلہ ٹائی ہوگیا اور جنوبی افریقہ کو اپنے ہی میدانوں پر پہلے مرحلے سے باہر ہونے کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ 2007ء میں پہلے ناک آؤٹ یعنی سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کھائی اور 2011ء میں اسے کوارٹر فائنل میں نیوزی لینڈ سے دوڑ سے باہر کیا۔ ان تمام عالمی کپ ٹورنامنٹس میں ہر بار بہترین ٹیم جنوبی افریقہ کی تھی لیکن ہر بار بڑے مقابلے میں شکست کھائی۔ اب کیا اس بار جنوبی افریقہ بڑے مقابلے کا دباؤ برداشت کر پائے گا؟ یہ 'ملین ڈالرز' کا سوال ہے اور اس کا جواب صرف جنوبی افریقہ کے پاس ہے۔
دوسری جانب سری لنکا اپنے اہم بلے باز کمار سنگاکارا کی فارم کے بل بوتے پر کچھ کرنے کی کوشش کرے گا۔ سنگا نے مسلسل چار مقابلوں میں سنچریاں بنا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا کے لیے تشویش کا اصل باعث اس کی بیٹنگ نہیں بلکہ باؤلنگ ہے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے سخت حریفوں کے سامنے بے جان ثابت ہونے والی اس گیندبازی کا مقابلہ اب ایسی ٹیم کے ساتھ ہے جو ٹورنامنٹ میں دو مرتبہ 400 رنز کا ہندسہ بھی عبور کرچکی ہے۔ کیا یہ ڈھیلی ڈھالی باؤلنگ لائن 'مہان' جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کو روک پائے گی؟ اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو پھر لنکا کے شیروں کو جیتنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔