کرکٹ بے صدا ہوگئی، رچی بینو چل بسے
90ء کی دہائی میں جب عالمی کپ جیتنے کے بعد پاکستان میں کرکٹ کا جنون اپنے عروج پر تھا تو آسٹریلیا میں پاکستان کے براہ راست مقابلوں میں پہلی بار ایک ایسی آواز سننے کو ملی جو دیگر تبصرہ کاروں کے مقابلے میں منفرد بھی تھی اور الفاظ کا چناؤ بھی مخصوص تھا۔ یہ رچی بینو تھے۔ آسٹریلیا کے سابق کپتان اور مشہور زمانہ تبصرہ کار، جو بالآخر طویل عرصےتک سرطان کےعارضے میں مبتلا رہنے کے بعدجمعے کو چل بسے۔
ایک عمدہ اسپن گیندباز، بہترین کپتان اور جارح مزاج بلے باز کی حیثیت سے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں رچی کی حیثیت مسلمہ تھی۔ آپ ہی زیر قیادت 1958ء میں آسٹریلیا نے طویل عرصے کے بعد ایشیز ٹرافی دوبارہ حاصل کی، پھر 1960ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف یادگار سیریز جیتی اور پھر 1961ء میں انگلستان کے خلاف اولڈ ٹریفرڈ کے مقام پر معجزاتی کامیابی بھی آپ ہی کے دور کا حصہ تھی۔ 1964ء میں جب کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو اس وقت 248 وکٹوں کے ساتھ آسٹریلیا کے سب سے کامیاب باؤلر تھے۔ لیکن کرکٹ دیکھنے والی نئی نسل ان کو ایک کھلاڑی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک تبصرہ کار یعنی کمنٹیٹر کی حیثیت سے زیادہ جانتی ہے۔
ایک طرف بل لاری جو برق رفتاری کے ساتھ بولتے رہنے کی وجہ سے معروف تھے، اس کے بالکل الٹ رچی بینو جملوں کے دوران طویل وقفوں اور اختصار کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی لفظ ان کے منہ سے نکلتا تھا، وہ بے تکا یا بے محل نہ ہوتا تھا۔ ان کا سپاٹ چہرہ، کمنٹری کا مخصوص انداز اور استعمال کیے جانے والے خاص الفاظ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ٹونی گریگ کے بعد رچی بینو کی موت کرکٹ کمنٹری کے لیے دوسرا بڑا دھچکا ہے اور تبصرہ کاری کے بڑے ناموں کے جانے کے بعد اب ہمیں بہت کم اچھے کمنٹیٹر نظر آتے ہیں۔