دھونی، ایک ”ڈوبتا ستارہ“؟
مہندر سنگھ دھونی ایک ایسے کھلاڑی تھے، جن کے ہاتھ میں پارس تھا۔ وہ جس چیز کو چھوتے تھے وہ سونا بن جاتی تھی۔ نو عمری میں قیادت ہاتھ لگنے کے بعد انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتا، پھر عالمی کپ اور پھر چیمپئنز ٹرافی۔ شاید ہی دنیائے کرکٹ کا کوئی بڑا اعزاز ہو جو ان کے ہاتھ نہ لگا ہو لیکن گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں میں ان کی انفرادی و قائدانہ صلاحیتوں کو گرہن لگ چکا ہے۔ ٹیسٹ میں مسلسل شکستوں کے بعد انہوں نے طویل طرز کی کرکٹ کو تو خیرباد کہا ہی لیکن اب لگتا ہے کہ ایک روزہ میں بھی انہیں 'قربانی کا بکرا' بننا پڑے گا۔
ایک ایسے سال میں، جس میں بھارت نے اپنے عالمی اعزاز کا دفاع کرنا تھا، ناکامیوں سے عبارت ہے۔ عالمی کپ 2015ء میں ناکامی اور اس کے بعد سے اب تمام ایک روزہ سیریز میں شکست بھارت اور اس سے بھی بڑھ کر دھونی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ رہی سہی کسر انڈین پریمیئر لیگ میں بدعنوانی کے اسکینڈل کے بعد ان کی فرنچائز چنئی سپر کنگز کی معطلی نے پوری کردی ہے۔ یعنی ایک، ایک کرکے دھونی پر سب دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں۔
اب جنوبی افریقہ کے ہاتھوں بدترین شکست نے ان کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ 438 رنز کھانے کے بعد بھارت کا دستہ صرف 36 اوورز کا مہمان ثابت ہوا اور 214 رنز کی ناقابل یقین شکست کھائی۔ فیصلہ کن مقابلے میں، جہاں صورت حال مارو یا مر جاؤ والی تھی، یہ کارکردگی ہر گز قابل برداشت نہیں ہے۔ فتح و شکست کھیل کا حصہ ہے لیکن اتنی بری طرح ہار جانے سے دھونی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ جو ناقدین بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ شکست پر خاموش تھے، اب انہیں کوئی چپ نہیں کرسکتا۔
بلاشبہ دھونی جیسا خوش قسمت کپتان دنیا کی کسی ٹیم کے پاس نہیں ہے۔ جو تمام بڑے اعزازات اپنے پاس رکھتا ہے۔ لیکن شکستوں کا سلسلہ دراز تر ہونے سے ان کا دامن داغدار ہو رہا ہے۔ اب کیا ہوگا؟ بھارت کے سابق کپتان سنیل گاوسکر کہتے ہیں کہ اگر دھونی کو نکالا گیا تو بھارت اپنے پیر پر کلہاڑی مارے گا۔ "شیکھر دھاون، سریش رینا، ویراٹ کوہلی، اسٹورٹ بنی اور باقی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر کوئی سوالیہ نشان ہی نہیں؟ اور انگلی اٹھ بھی رہی ہے تو صرف دھونی پر؟ یہ درست رویہ نہیں ہے۔ باؤلرز کی کارکردگی دیکھیں اور الزام دھونی کو دیا جائے تو یہ بدقسمتی ہوگی۔" انہوں نے کہا۔
گاوسکر کہتے ہیں کہ "دھونی میں ابھی بہت کرکٹ باقی ہے، وہ تین سے پانچ سال تک مزید خدمات انجام دے سکتے ہیں" لیکن سب کا خیال ایسا نہیں ہے۔ ایک اور سابق کپتان اظہر الدین کہتے ہیں کہ دھونی اپنا جادوئی اثر کھو چکے ہیں اور اب ان میں پہلے جیسی بات نہیں دکھائی دے رہی۔ البتہ گاوسکر سمجھتے ہیں کہ "دھونی بدستور ایک 'خاص' کھلاڑی ہیں اور انہیں بہترین مقام تک پہنچنے کے لیے وقت دیا جائے۔"
ایک اور سابق کھلاڑی ارپالی پرسنا کہتے ہیں کہ "یہ دھونی کے زوال کا نقطہ آغاز ہے۔ اختتام بہرحال نہیں ہے، وہ دو تین سال مزید کھیل سکتے ہیں لیکن ان کا ستارہ اب رو بہ زوال ہے۔"
دھونی کے لیے ایک اور درد سر انڈین پریمیئر لیگ کے اگلے ایڈیشن میں کسی نئی ٹیم کو ڈھونڈنا ہوگا۔ سپر کنگز کی دو سالہ معطلی کے بعد دھونی کی چنئی کے ساتھ 8 سالہ وابستگی بھی اختتام کو پہنچنے والی ہے اور وہ کسی اور ٹیم کی طرف سے کھیلتے نظر آئیں گے۔ پہلے یہ افواہیں گردش کررہی تھی کہ دھونی اگلے دو سال تک آئی پی ایل نہیں کھیلیں گے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ دھونی آئی پی ایل جیسا اہم ایونٹ نہ کھیلیں۔ چنئی سپر کنگز کی جانب سے ان پر رکنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا جا رہا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ایک ڈوبتے ہوئے ستارے کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے یا آئی پی ایل میں ان کی مانگ ویسی ہی رہے گی۔