ماہِ اکتوبر کا بہترین بلے باز، ڈی ولیئرز!

1 1,018

دورِ جدید کی کرکٹ کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ صرف بلے بازوں کا کھیل بن گئی ہے تو شاید غلط نہ ہو کہ کرکٹ کے اصول بھی اور پھر وکٹیں بھی گیندبازوں سے سوتیلا سلوک کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس لیے اکتوبر 2015ء کا مہینہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور بلے بازوں کے لیے بہت خوشگوار ثابت ہوا۔

اس مہینے میں تین بڑی سیریز کھیلی گئیں۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں ایک روزہ میں مدمقابل آئیں، جہاں "بلے بازوں کی جنت" میں گویا سنچریوں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ پھر پاک-انگلستان ٹیسٹ سیریز صحرائے عرب میں جاری ہے جس میں پاکستان کے بلے بازوں نے انگلستان کے گیندبازوں سے اگلے پچھلے تمام حساب چکتا کردیے ہیں البتہ سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیسٹ سیریز نہ صرف لو-اسکورنگ رہی بلکہ یہاں دیگر مقابلوں کے برعکس گیندبازوں کی حاکمیت رہی۔

اگر ہمیں یہ دیکھنا ہو کہ اکتوبر کے دوران ان تینوں سیریز میں سب سے کامیاب بلے باز کون سا رہا تو بلا جھجک ہم جنوبی افریقہ کے ایک روزہ کپتان ابراہم ڈی ولیئرز کا نام لے سکتے ہیں۔

بھارت کے خلاف پانچ مقابلوں کی سیریز میں 'اے بی' نے تین سنچریاں بنائیں اور آخری و فیصلہ کن مقابلے میں 61 گیندوں پر 119 رنز کی اننگز تو بھلائے نہیں بھولتی۔ وکٹ کے چاروں طرف رنز بٹورنے والے ڈی ولیئرز خداداد صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ جب بلے بازی کرتے ہیں تو بڑے سے بڑا ہدف، یا مجموعہ، ان کے سامنے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا سورج کے سامنے چراغ۔

ڈی ولیئرز کے لیےصرف یہ سیریز ہی نہیں بلکہ یہ پورا سال ہی یادگار رہا ہے۔ 76.71 کے اوسط اور 133.58 کےاسٹرائیک ریٹ سے وہ اب تک 1193 رنز بنا چکے ہیں جن میں پانچ سنچریاں بھی شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کے کین ولیم سن اور مارٹن گپٹل ہی رنز کی سالانہ دوڑ میں ان سے آگے ہیں۔

بھارت میں وکٹیں اسپنرز کے لیے سازگار ہوتی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی ولیئرز کے علاوہ جنوبی افریقہ کے بیٹسمینوں کا اسپن گیندبازوں کے خلاف اسٹرائیک ریٹ صرف 64 کا تھا لیکن 'اے بی' نے ہر 100 گیندوں پر اسپنرز سے 99 رنز لوٹے۔ یعنی جب باؤلرز دیگر بلے بازوں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہوں تو ڈی ولیئرز شاندار حکمت عملی سے انہیں زیر کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔

ڈی ولیئرز کے کیریئر کی خاص بات یہ ہے کہ اب وہ دنیا کے واحد بلے باز بن گئے ہیں، جن کا اوسط 50 اور اسٹرائیک ریٹ 100 سے اوپر ہے۔ 54.21 کا شاندار اوسط اور 100.28 کا اسٹرائیک ریٹ بڑے سے بڑے بلے باز کا خواب ہوگا۔ اگر ڈی ولیئرز نے اسے اپنے کیریئر کے اختتام تک قائم رکھا تو تصور کیجیے کہ ایک روزہ کرکٹ میں انہیں کیا مقام حاصل ہوگا۔ وہ تقریباً 200 ایک روزہ کھیل چکے ہیں اور اتنے زیادہ مقابلوں میں یہ اوسط اور اسٹرائیک ریٹ ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت ان کی عمر لگ بھگ 30 سال ہے اور ان کی چستی اور پھرتی دیکھتے ہوئے گمان ہے کہ وہ اگلے چار سے پانچ سال باآسانی مزید کھیل سکتے ہیں۔