شارجہ کی وکٹ ”خطرناک“، پاکستان صرف 234 رنز پر ڈھیر
جب پاک-انگلستان تیسرے و آخری ٹیسٹ کا پہلا دن مکمل ہوا تو پاکستانی قائد مصباح الحق میدان سے واپس آنے سے پہلے التجا بھری نگاہوں سے پچ کو دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ اب مقابلے کے نتیجے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آئندہ ایک، دو روز میں پچ کا رویہ کیسا ہوگا۔ پاکستان تو ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرتے ہوئے کوئی بڑا مجموعہ کھڑا نہیں کر پایا اور پوری ٹیم 234 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ پورا دن انگلستان کے گیندبازوں کی عمدہ باؤلنگ سے عبارت رہا۔ جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ چھائے رہے کہ جنہوں نے صرف 30 رنز دے کر پاکستان کی 6 وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستان نے فیصلہ کن معرکے کے لیے شان مسعود کی جگہ اظہر علی کو کھلایا جبکہ زخمی عمران خان کی جگہ راحت علی نے لی۔ جب مصباح الحق نے ٹاس جیتا تو پہلے بلے بازی سے بہتر انتخاب کس چیز کا ہو سکتا تھا؟ انہوں نے بیٹنگ کو ہی چنا اور پاکستان محمد حفیظ اظہر علی کے ساتھ میدان میں اترے۔ لیکن ابتداء ہی سے بلے بازوں کا سخت امتحان شروع ہوگیا۔ تیسرے اوور میں اظہر علی بغیر کوئی رن بنائے اینڈرسن کا پہلا شکار بنے۔ 17 اوورز تک حفیظ اور شعیب ملک نے مزاحمت کی لیکن حفیظ کے نصیب میں ایک اور ناکامی ہی لکھی تھی۔ غیر ضروری جارح مزاجی نے ان کی اننگز محض 27 رنز پر تمام کردی۔ پاکستان اس وقت کچھ بہتر مقام پر نظر آتا تھا جب 88 رنز تک صرف دو کھلاڑی آؤٹ تھے اور شعیب ملک اور یونس خان کریز پر کھڑے تھے۔ لیکن کھانے کے وقفے کے فوراً بعد شعیب ملک کے آؤٹ ہونے سے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچا۔ وہ 91 گیندوں پر 38 رنز بنانے کے بعد براڈ کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہوئے۔
اب مصباح الحق اور یونس خان کی صورت میں تجربہ کار ترین جوڑی کریز پر موجود تھی۔ لیکن دونوں زیادہ دیر تک ساتھ نہ رہ سکے۔ یونس 31 رنز بنانے کے بعد اینڈرسن کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوئے اور جاتے جاتے ایک ریویو بھی ضائع کراگئے۔ پاکستان صرف 103 رنز پر 4 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا اور جو کسر رہ گئی تھی وہ اسد شفیق کے سمیت پٹیل کے ہاتھوں آؤٹ ہونے سے پوری ہوگئی۔ 116 رنز اور آدھی ٹیم میدان سے واپس۔
یہاں سرفراز احمد اور مصباح الحق نے کچھ مزاحمت دکھائی۔ خاص طور پر سرفراز نے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے کھل کر کچھ شاٹس کھیلے اور مصباح نے بھی ان کی تقلید کی۔ جب اسکور 196 رنز تک پہنچ گیا تو امید بھی پیدا ہونے لگی تو ہمیشہ کی طرح سرفراز نے ایک غلط شاٹ کا انتخاب کرکے اپنی وکٹ ضائع کردی۔ پاکستان پھر نہیں سنبھل سکا۔ اگلے اوور میں وہاب ریاض کی وکٹ گری اور ساری ذمہ داری مصباح کے کاندھوں پر آن پڑی۔ جیسے جیسے مجموعہ 224 رنز تک پہنچا جہاں مصباح کی صورت میں پاکستان کی نویں وکٹ گریں۔ مصباح نے 160 گیندوں پر 71 رنز بنائے۔ جس میں دو چھکے اور 7 چوکے بھی شامل تھے۔ پاکستانی اننگز 86 ویں اوور کی پہلی گیند پر راحت علی کے اینڈرسن کے ہاتھوں آؤٹ ہوتے ہی تمام ہوگئی۔ جب دن کے صرف 5 اوورز کا کھیل باقی تھا۔ آخری پانچ وکٹیں صرف 38 رنز کے اضافے سے گریں۔
اینڈرسن نے 15.1 اوورز میں صرف 17 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں۔ اس دوران انہوں نے اپنی ٹیسٹ وکٹوں کی تعداد کو 424 تک پہنچایا۔ جب انہوں نے یونس خان کو آؤٹ کیا تو وہ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند بازوں کی فہرست میں جنوبی افریقہ کو شان پولاک کو پیچھے چھوڑ گئے۔ اب جمی سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے تیز گیندبازوں میں پانچویں اور مجموعی طور پر تمام باؤلرز میں آٹھویں نمبر پر آگئے ہیں۔ دوسری جانب براڈ نے 13 رنز کے بدلے 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ دو، دو وکٹیں سمیت پٹیل اور معین علی کو بھی ملیں۔
انگلستان کے دن کو اختتامی لمحات میں دو اوورز کھیلنے کو ملے۔ جس میں وہ چار رنز بنانے میں کامیاب ہوا۔ یہ معین علی کا یاسر شاہ کو لگایا گیا وہ پراعتماد چوکا تھا، جسے امپائر نے پہلے چھکا قرار دیا تھا اور بعد ازاں ری پلے میں پایا کہ یہ چھکا نہیں بلکہ چوکا ہے۔
پہلے روز پچ نے تیز گیندبازوں کو وکٹیں دیں اور اسپنرز کو بھی خوب مدد دی ہے لیکن دوسرے روز یہ کیارنگ دکھائے گی؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ویسے اینڈرسن اور براڈ نے جیسی باؤلنگ کروائی اس کے بعد تو پاکستانیوں کی نظریں اب بجائے یاسر شاہ کے وہاب ریاض پر ہوں گی، جو عمران خان کی جگہ راحت علی کے ساتھ کھیلیں گے۔
دوسرے دن کا پہلا سیشن بہت اہمیت کا حامل ہوگا اور یہ فیصلہ کرے گا کہ وکٹ میں واقعی گیندبازوں کے لیے مدد موجود ہے یا پاکستان کے بلے باز اپنی نااہلی سے آؤٹ ہوئے ہیں۔