”فتح ہند“ میں ناکامی کے بعد جنوبی افریقہ کو ایک اور مہم درپیش
گریم اسمتھ اور ژاک کیلس جیسے عظیم کھلاڑی ایک ساتھ ساتھ چھوڑ جائیں تو بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ جنوبی افریقہ مشکلات کا شکار نہ ہو؟ لیکن اس کڑے دور میں بھی جنوبی افریقہ نے ابراہم ڈی ولیئرز، ہاشم آملا اور ڈیل اسٹین سمیت دیگر کھلاڑیوں کی مدد سے حوصلے برقرار رکھے اور فتوحات کی جانب سفر بھی جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ آج بھی دنیائے ٹیسٹ کی نمبر ایک ٹیم ہے۔ البتہ جو استحکام اور برتری اسے حاصل تھی اب وہ برقرار نہیں رہی کیونکہ بھارت کا دورہ اسے عرش سے فرش پر لے آیا ہے۔
اب انگلستان کے خلاف 26 دسمبر سے شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز جنوبی افریقہ کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔ ایک تو یہ گھر میں ہو رہی ہے اور یہاں جہاں کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں وہیں یہ بات بھی ذہن میں ہے کہ شکست کا داغ بہت گہرا ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اول پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے بھی جنوبی افریقہ کوکامیابی کی بہت ضروری ہے۔ اس سیریز میں جن کو کھیلنے کا موقع ملے گا انہیں بھی خود کو ثابت کرنا ہوگا۔ بھارت کے خلاف بدترین شکست کے بعد یقیناً جنوبی افریقہ پر بہت دباؤ ہوگا اور مایوس کن کارکردگی کے بعد سب کھلاڑیوں کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ انگلستان کے خلاف ان غلطیوں کو نہ دہرائیں۔ لیکن سیریز کے آغاز سے قبل جس طرح انگلستان کے سامنے کچھ سوالات ہیں، لگ بھگ ویسے ہی سوالات جنوبی افریقہ کے روبرو بھی کھڑے ہیں، جن کے سوال دینا بہت ضروری ہے۔
سوال نمبر ایک: کیا ابراہم ڈی ولیئرز کو پوری سیریز میں وکٹ کیپنگ کرنی چاہیے؟
انگلستان کے خلاف ابتدائی دو ٹیسٹ کے لیے جنوبی افریقہ نے ڈی ولیئرز کو وکٹ کیپنگ کی اضافی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سلیکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ مستقل حل نہیں ہے۔ درحقیقت ایک مزید بلے باز کو شامل کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ لیکن اس امر کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ڈی ولیئرز نے ابتدا ہی نے ٹیسٹ میں وکٹ کیپنگ سے پرہیز کیا ہے، جس کی وجہ سےان کی کمر کی تکلیف ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈی ولیئرز جنوبی افریقہ کے بہترین بلے باز ہیں اور وکٹ کیپنگ کی اضافی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اگر وہ زخمی ہوگئے تو میزبان کے لیے اس سے بڑا نقصان کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ایسا نہ ہو کہ ایک پہلو پر غور کرتے ہوئے ایک زیادہ بڑا مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے۔ جنوبی افریقہ کے پاس اس وقت ڈین ولاس اور کوئنٹن ڈی کوک کی صورت میں دو وکٹ کیپرز موجود ہیں اور دونوں فرسٹ کلاس بھی کھیل رہے ہیں۔ ایک روزہ کی بات کی جائے تو وہاں ڈی کوک نے خود کو ثابت کیا ہے لیکن لگتا ہے کہ ٹیسٹ کے لیے سلیکٹرز ان پر بھروسےکو تیار نہیں ہیں۔
سوال نمبر دو: کل وقتی اسپن گیندبازوں کو نہ کھلا کر جنوبی افریقہ غلطی تو نہیں کر رہا؟
اگر پاکستان کے ہاتھوں انگلستان کی شکست کے اسباب دیکھے جائیں تو اس میں مرکزی کردار پاکستانی اسپن گیندباز ہی کا تھا۔ لیکن جنوبی افریقہ نے انگلستان کے خلاف ابتدائی دونوں ٹیسٹ کے لیے کل وقتی اسپن گیندبازوں کو موقع نہیں دیا بلکہ جزوقتی ڈین پیڈ کا انتخاب کیا گيا ہے۔ اگر اسپن گیندبازوں کے خلاف انگلستان کی مشکلات دیکھی جائے تو جنوبی افریقہ کو خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر تیز گیندبازوں کے لیے سازگار وکٹوں پر ژاں پال دومنی اور ڈین ایلگر جیسے جز وقتی آپشنز پر انحصار کرنا کتنا ٹھیک ہوگا؟ ابتدائی دو مقابلوں کے نتائج جنوبی افریقہ کو ضرور یہ سوچنے پر مجبور کریں گے۔
سوال نمبر تین: اگر اوپنر دوبارہ ناکام ہوگئے، تو پھر کیا ہوگا؟
اگر بھارت کے خلاف جنوبی افریقہ کے اوپنرز ستیانو ان زیل اور ڈین ایلگر کی کارکردگی کی بات کی جائے تو اسے ہر گز تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ وکٹ کی خرابی کے باعث ایسا ہوا ہو، لیکن انگلستان کے خلاف اہم سیریز سے قبل اعتماد میں کمی اور مشکل سیریز کھیلنے کے دباؤ کی وجہ سے ممکن ہے کہ ان سے ایک مرتبہ پھر ویسی ہی کارکردگی کا ظہور ہو۔ اگر وان زیل کی بات کی جائے تو وہ طرز کی بین الاقوامی کرکٹ میں وہ زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔ کارکردگی کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ انہیں فارم کی تلاش کے لیے ڈومیسٹک مقابلوں میں اتارا جائے کیونکہ ایک اچھی کارکردگی کے لیے جنوبی افریقہ کے پاس انتظار کا زیادہ وقت نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وان زیل ناکام ہو جائے تو ایک روزہ کے اوپنر اور کپتان ہاشم آملا آگے آئیں اور انہیں نیچے بلے بازی کے لیے بھیجا جائے۔ لیکن یہ کہنا آسان ہے اور ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ہاشم کا کردار اننگز کو سنبھالنے کے لیے بہت اہم ہے اور کپتان کی حیثیت سے وہ کبھی خود کو کسی تجربے کی نذر نہیں کرنا چاہیں گے۔