[سالنامہ 2015ء] جو توقعات پر پورا نہ اتر سکے

0 1,057

کرکٹ اب بہت تیز رفتار کھیل بن چکا ہے۔ محدود اوورز کی کرکٹ شروع ہونے سے پہلے تو سال بھر میں کسی ٹیم کو ایک یا بمشکل دو سیریز ہی کھیلنے کو ملتی تھیں، اس لیے کارکردگی کو جانچنے کے لیے بھی بڑا وقت ملتا تھا۔ اب تو بھانت بھانت کی لیگ کرکٹ دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ ہے تو آسٹریلیا میں بگ بیش، ویسٹ انڈیز میں کیریبیئن لیگ ہے تو بنگلہ دیش میں بی پی ایل، اب تو پاکستان نے بھی سپر لیگ کے نام سے ایک لیگ شروع کردی ہے، یعنی اب شاید ہی کوئی مہینہ ایسا بچے جس میں ہمیں کرکٹ دیکھنے کو نہ مل رہی ہے۔ اس لیے کھلاڑیوں کی جیبیں تو بھاری ہوئی ہی ہیں، لیکن ان کے جسم اور ذہن پر بھی کافی بوجھ پڑ گیا ہے۔ کھلاڑی کس بری فارم سے گزر رہا ہے، اب اس کا اندازہ لگانے کے لیے مہینہ ہی کافی ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ سلسلہ سال بھر پر محیط ہو جائے تو کسی بھی کھلاڑی کے کیریئر کو ختم کرنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔

سال 2015ء میں جہاں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی نظر آئے، وہیں جدوجہد کرتے، پریشان ہوتے، واپسی کی کوشش کرتے اور گومگو کی کیفیت میں موجود کھلاڑی بھی دیکھنے کو ملے۔ ان میں سے چند نے تو بالآخر ہار مان کر میدان چھوڑنے کا فیصلہ کیا جبکہ باقی برے وقت کو گزارنے اور اچھے وقتوں کے انتظار کی تمنا لیے بیٹھے ہیں۔ آئیے ان کھلاڑیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جن سے توقعات بہت زیادہ تھیں، لیکن وہ ان پر پورا نہ اتر سکے۔

مائیکل کلارک

ابھی دو سال پہلے ہی ہم سمجھ رہے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت مائیکل کلارک کا راستہ روکنے والی نہیں۔ لیکن وقت ہمیشہ ایک سال نہیں رہتا، کہاں ایک سال میں سب سے زیادہ ڈبل سنچریوں کا ریکارڈ اور کہاں 2015ء میں ہاری ہوئی بازی میں خود کو بچانے کی کوشش کرنے والے کلارک۔ ایک روزہ میں 36 کے اوسط سے 219 رنز تو معقول ہیں، پھر عالمی کپ کے فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف 74 رنز کی شاندار اننگز بھی یادگار رخصتی تھی لیکن ایشیز میں بدترین کارکردگی ان کی ریٹائرمنٹ پر منتج ہوئی۔ مجموعی طور پر سال بھر میں 7 ٹیسٹ مقابلوں میں ان کا اوسط صرف اور صرف 21 رہا۔ وہ ایک مرتبہ بھی 50 کا ہندسہ تک عبور نہ کرسکے۔

یوں 115 ٹیسٹ میں 49 کے اوسط سے 8643 اور ایک روزہ میں 44 کے اوسط سے 7981 رنز بنانے والے کلارک دنیائے کرکٹ چھوڑ گئے۔

شین واٹسن

آسٹریلیا ایک طویل عرصے تک دنیائے کرکٹ پر چھایا رہا لیکن ہر عروج کو زوال ہے، بالآخر رکی پونٹنگ کے عہد میں وہ گرتا چلا گیا یہاں تک کہ خود رکی ہی کرکٹ چھوڑ گئے۔ اس کے بعد آسٹریلیا کو سنبھلنے میں وقت لگا۔ جس کھلاڑی کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ آسٹریلیا کو ایک مرتبہ پھر عروج پر پہنچا سکتا ہے، وہ شین واٹسن تھے۔ ایک بہترین آل راؤنڈر، جن کی 2015ء میں محض شبیہ ہی رہ گئی۔ کم از کم گیندبازی کا تو سلسلہ ہی ختم ہوگیا کیونکہ انہوں نے ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں کو ملا کر سال بھر میں کل 8 وکٹیں ہی حاصل کیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیز میں توقعات پر پورا نہ اترنے کے بعد انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کو ہی خیرباد کہہ دیا۔ 2015ء میں واٹسن نے بھارت کے خلاف ایک، ویسٹ انڈیز کے مقابلے میں دو اور آخر میں انگلستان کے مقابلے میں ایک ٹیسٹ کھیلا، اور 4 مقابلوں کی 6 اننگز میں صرف 182 رنز بنائے۔

تاہم واٹسن اب بھی آسٹریلیا کے لیے ایک روزہ میں دستیاب ہیں، لیکن یہاں مقام برقرار رکھنے کے لیےانہیں کارکردگی دکھانا ہوگی۔ عالمی کپ 2015ء میں سری لنکا اور پاکستان کے خلاف نصف سنچری کے علاوہ وہ سال بھر میں کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اس لیے اگر آسٹریلیا کو صرف ایک بلے باز ہی کھلانا ہے تو اس کے پاس دیگر کھلاڑی بھی موجود ہیں، آخر واٹسن ہی کو کیوں منتخب کرے؟ اس سوال کا جواب واٹسن کو 2016ء میں دینا ہوگا ورنہ شاید 2016ء کے بعد وہ بین الاقوامی کرکٹ میں نظر نہ آئیں۔

ہاشم آملا

ایک ایسا بلے باز، جسے ہر طرز کی کرکٹ میں رنز کے انبار لگاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ہاشم آملا جب ترنگ میں آتے ہیں تو ریکارڈ پر ریکارڈ توڑہے ہیں اور 2015ء میں بھی وہ مکمل طور پر بجھے ہوئے نہیں دکھائی دیے۔ ایک روزہ میں 50 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 1062 رنز اس کا ثبوت ہیں لیکن ٹیسٹ میں صرف 25 کا اوسط اور محض 232 رنز ہرگز ہاشم کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ یہ 2006ء کے بعد سے اب تک ان کے لیے سب سے مایوس کن سال رہا ہے اور یہ پہلا موقع بھی ہے کہ ہاشم نے سال بھر میں کوئی ٹیسٹ سنچری نہ بنائی ہو۔

بالخصوص آملا اسپن باؤلنگ کے خلاف بھی خاصے جدوجہد کرتے دکھائی دیے۔ بھارت کے خلاف حالیہ سیریز میں ان کی ناکامی ایک مایوس کن منظر تھا، خود بھارت کے تماشائیوں کے لیے بھی جنہیں ورلڈ نمبر ون کے خلاف ایک دلچسپ سیریز کی توقع تھی۔ اب اگر 2016ء میں، خاص طور پر انگلستان کے خلاف جلد شروع ہونے والی سیریز میں، ہاشم آملا واپس فارم میں نہ آئے تو کم از کم ان کی قیادت کو تو سنگین خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

مچل جانسن

Mitchell-Johnson

ایشیز میں آسٹریلیا کی کئی یادگار فتوحات کے ہیرو، جن کے ہاتھوں کئی انگلش بلے بازوں کا کیریئر اختتام کو پہنچا۔ رواں سال جب روایتی حریف آمنے سامنے آئے تو ان سے بہت توقعات تھیں لیکن نہ صرف کارکردگی بلکہ مجموعی طور پر نتیجہ بھی برعکس رہا۔ نہ آسٹریلیا کے گیندباز 'پر' مار سکے اور نہ ہی جانسن میں کوئی جانسن والی بات نظر آئی۔ بس یہی ان کے زوال کا نقطہ آغاز تھا۔

جانسن سال بھر وکٹوں کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے دکھائی دیے جبکہ ان کے ساتھی مچل اسٹارک اور دیگر آسٹریلین گیندباز اپنے اہداف کو بخوبی نشانہ بناتے رہے۔ جانسن کو سال بھر 9 ٹیسٹ میں صرف 30 وکٹیں ملیں، وہ بھی 33.76 کے بھاری اوسط کے ساتھ۔ واضخ رہے کہ 2014ء میں انہوں نے 23 کے اوسط سے 47 اور 2013ء میں 17 کے اوسط سے 34 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ایک روزہ میں، جہاں آسٹریلیا نے عالمی کپ جیتا، وہاں پھر بھی انہوں نے کچھ کر دکھایا کہ 9 میچز میں 18 وکٹیں حاصل کیں ۔ لیکن ٹیسٹ جو جانسن کے لیے اہم میدان تھا، وہاں ان کی کارکردگی دیکھ کر یہ جملہ تک کسا گیا کہ لگتا ہے اب جانسن بغیر وکٹ کی مدد کے کچھ نہیں کرسکیں گے۔ شاید یہی بات وہ دل پر لے گئے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے دوران ہی انہوں نے اچانک ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ یوں ناقص کارکردگی کی وجہ سے آسٹریلین کرکٹ کا ایک اور باب بند ہوگیا۔

ویراٹ کوہلی

Virat-Kohli

وہ تمام تر بدتہذیبی و بدتمیزی، جو تیز گیندبازوں کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے، بھارت کے اس بلے باز میں ہے اور واقعی انہوں نےکامیابیاں بھی اسی طرح سمیٹی ہیں، جس طرح کوئی برق رفتار اور باصلاحیت فاسٹ باؤلر سمیٹتا ہے۔ 23 سنچریاں اور 6 ہزار رنز، وہ بھی اس عمر میں، دنیا کے کسی بھی بلے باز کے لیے خواب ہوتا ہے، لیکن کوہلی کے لیے ایک حقیقت ہے۔ لیکن 2015ء میں ہمیں کوہلی کی شرٹ پہنے ایک عام سا بلے باز دکھائی دیا۔ انگلستان کے دورے پر ناکامی اور ایک روزہ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد وہ سال کے نمایاں ترین بھارتی بلے باز نہیں رہے۔ 20 ایک روزہ مقابلوں میں ان کا اوسط 36 رہا، جو ان کے کیریئر کے پہلے سال کو چھوڑ کر اب تک کا سب سے کم بیٹنگ اوسط ہے۔ البتہ خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ ٹیسٹ میں خوب چلے ہیں اور قائد کی حیثیت سے بھارت کو بیرون ملک اور گھریلو میدانوں پر ہونے والی سیریز میں کامیابیاں بھی دلائی ہیں۔ اب صرف تین ماہ بعد بھارت میں سال کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ 'ورلڈ ٹی ٹوئنٹی' کھیلا جائے گا کہ جہاں سب چاہتے ہیں کہ بھارت 9 سال بعد ایک مرتبہ پھر عالمی ٹی ٹوئنٹی اعزاز جیتے۔ لیکن اگر محدود طرز کی کرکٹ میں کوہلی کی فارم ایسی رہی تو بھارت کے لیے یہ خواب خواب ہی رہ جائے گا۔