آسٹریلیا کی ناقص ’اسپیڈ گن‘، ہیزل ووڈ کو دنیا کا تیز ترین باؤلر بنا دیا
تیز گیندبازوں سے ان کی پہلی دو خواہشات کے بارے میں دریافت کیا جائے تو جواب عموماً یہی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وکٹوں کا حصول اور تیز ترین گیند کا عالمی ریکارڈ۔ اگر آپ کی دونوں خواہشیں مکمل ہوں لیکن بعد میں معلوم ہو کہ دراصل آپ کے ساتھ دھوکا ہوا ہے تو غم کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آسٹریلیا کے جوش ہیزل ووڈ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
ملبورن میں کھیلے گئے آسٹریلیا-ویسٹ انڈیز دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے دن جب آسٹریلیا نے 179 رنز پر اننگز ڈکلیئر کرکے ویسٹ انڈیز کو دوبارہ کھیلنے کے لیے میدان میں اتارا تو دوسرے ہی اوور میں جوش ہیزل ووڈ کی ایک گیند نے سب کو چونکا دیا۔ ویسٹ انڈیز کے اوپننگ بلے باز راجندر چندریکا نے جس گیند کا سامنا کیا تھا وہ اسپیڈومیٹر پر 164.2 کلومیٹر یعنی 102 میل فی گھنٹہ کی رفتار دکھا رہی تھی۔ یعنی تاریخ کی تیز ترین گیند تھی۔ یہ ریکارڈ پاکستان کے شعیب اختر کے پاس ہے جنہوں نے 161.3 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینکی تھی۔
اگر کوئی ایسا باؤلر گیند پھینکے تو یقین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے جو عموماً 135 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینکتا ہے۔ اچانک 164.2 کی طوفانی رفتار؟ ضرور کوئی مسئلہ ہوا ہوگا۔ تحقیقات کی گئیں اور معلوم ہوا کہ گیند کے پیچھے ہیزل ووڈ کے جوش کا کمال نہیں بلکہ مشین کی خرابی کا مسئلہ تھا۔
اسپیڈ گن کی خرابی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ابھی رواں ماہ کے اوائل میں ہی نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان دوسرے ٹیسٹ کے دوران یہی ہو چکا ہے جب نیوزی لینڈ کے گیندباز نیل ویگنر کی ایک گیند 160 فی گھنٹے کی رفتار تک پہنچتی دکھائی دیے۔ اس پر تو خود ویگنر بھی حیران رہ گئے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عین اسی وقت اسپیڈ گن اور گیند کے درمیان سے ایک پرندہ پوری رفتار سے گزرا تھا جس سے گیند کی رفتار کی پیمائش غلط ہوگئی۔
ویسے آپ کو یاد ہوگا کہ جب شعیب اختر نے پہلی بار 100 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینکی تھی تو بین الاقوامی کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان میں استعمال کی گئی اسپیڈ گن ناقص تھی۔ اب بتائیں، کس کی ڈیوائس ناقص ہے اور کس کی نہیں؟