ایک روزہ میں پاکستان کی مسلسل شکستیں، سبب اور حل
ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کی شکست کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ کھلاڑی بدل، کپتان چلے گئے، حالات تبدیل ہوگئے لیکن فتوحات کو شکست میں بدلنے کا چلن عام نہ ہو سکا۔
گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ میں نمایاں کامیابیاں محض انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں جبکہ اہم شکستوں کا حساب رکھنا بھی مشکل ہے۔ عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل تک رسائی کے بعد سے اب تک جنوبی افریقہ اور بھارت میں فتوحات حاصل کرنے کے علاوہ پاکستان کرکٹ کا دامن مکمل طور پر خالی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہی میدانوں پر یعنی متحدہ عرب امارات میں بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوا۔
لیکن یہ "دو چار برس کی بات نہیں"، یہ قصہ کچھ زیادہ ہی پرانا ہے۔ جس طرح ہاکی میں "جدت" نے پاکستان کو عالمی دوڑ سے باہر کردیا بالکل یہی حال اکیسویں صدی میں آنے والی تبدیلیوں نے پاکستان کی کرکٹ کا کیا ہے۔ وہ ایسے کہ اسی عرصے میں پاکستان کی ٹیسٹ کارکردگی نہ صرف بہتر بلکہ نمایاں ترین رہی ہے۔ شاید ہی بین الاقوامی کرکٹ کا ایسا کوئی "سورما" ہو جو پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار نہ ہوا ہو یہاں تک کہ آسٹریلیا اور انگلستان تک پاکستان کے ہاتھوں کلین سویپ کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ تو محدود اوورز کی کرکٹ میں نتائج بالکل برعکس کیوں؟ اس کی وجہ ہے کہ پاکستان اب بھی 90ء کی دہائی کے انداز کی کرکٹ کھیل رہا ہے اور یہ انداز ایک روزہ کے بجائے ٹیسٹ سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔
ایک ایسے عہد میں جب آئرلینڈ، بنگلہ دیش اور زمبابوے تک ہدف کے تعاقب میں 300 سے زیادہ رنز بنا ڈالتے ہیں، پاکستان گزشتہ پانچ سالوں میں صرف ایک ایسا مقابلہ جیتا ہے جہاں اس نے 300 سے زیادہ کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا ہو۔ جبکہ 250 سے زیادہ کے ہدف کے تعاقب میں بھی صرف 7 مقابلے ہی ایسے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب ٹیمیں 350 سے بھی زیادہ کے ہدف تعاقب میں حاصل کر رہی ہیں، یہ کارکردگی پاکستان کے "زمانۂ قدیم" کے انداز کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
ویسے اس میں کافی حد تک پاکستان کے کھلاڑیوں کا قصور نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایک بھی ایسا دور نہیں گزرا، جب پاکستان کرکٹ کی اصل طاقت اس کی بلے بازی ہو۔ ہمیشہ باؤلرز آگے آگے رہے اور پاکستان کی تقریباً تمام ہی یادگار فتوحات گیندبازوں کی مرہون منت ہیں۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اب بلے بازی کھیل پر بہت زیادہ حاوی ہو چکی ہے۔ قانون بلے بازوں کے ساتھ ہے، ضوابط ان کے حق میں ہیں، وکٹیں ان کے لیے مددگار بنائی جاتی ہیں، یہاں تک کہ اب تو آسٹریلیا اور انگلستان میں بھی "بیٹنگ فرینڈلی" وکٹیں ملتی ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کو اپنی اصل طاقت ظاہر کرنے کا موقع ہی نہیں مل پا رہا کیونکہ کھیل پر وہ عنصر غالب آ چکا ہے جو ہمیشہ پاکستان کی کمزوری رہا ہے۔ ایک تو بلے بازی، اور اس سے بھی بڑی کمزوری ہدف کا تعاقب۔ اس لیے کم از کم مستقبل قریب میں محدود اوورز کی کرکٹ، بالخصوص ایک روزہ، میں پاکستان کے عالمی منظرنامے پر غالب آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پاکستان نے اللہ اللہ کرکے تو چیمپئنز ٹرافی 2017ء کے لیے کوالیفائی کیا، حالانکہ شرط صرف درجہ بندی میں سرفہرست 8 ٹیموں میں شمار ہونا تھا لیکن پاکستان بمشکل اس شرط کو پورا کرسکا۔
پاکستان کو بالآخر نئی حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوگا جس کا مرکز بلے باز ہوں اورجب تک ایسے نہیں کیا جائے گا، ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اور ہو سکتا ہے کہ محدود اوورز کے کھیل میں پے در پے شکستیں ٹیسٹ میں ملنے والے اعتماد کا بھی خاتمہ کردیں۔ اس لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ورنہ سپر لیگ بھی پاکستان کرکٹ کو بچا نہیں سکے گی۔