ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء، پانچ حیران کن نام

0 1,069

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کے لیے تمام 16 ممالک نے اپنی ٹیموں کا اعلان کر دیا ہے۔ سال کے اس اہم ترین ٹورنامنٹ کے لیے زیادہ تر کھلاڑیوں کا انتخاب توقعات کے عین مطابق ہوا ہے۔ دفاعی چیمپئن سری لنکا اور اعزاز کے لیے اہم امیدوار نیوزی لینڈ نے اپنے بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن چند ایسے کھلاڑی بھی ہیں، جن کی شمولیت سب کے لیے حیران کن ہے۔ آئیے، ایک، ایک کرکے ان پر نظر ڈالتے ہیں۔

خرم منظور (پاکستان)

Khurram-Manzoor

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے پاکستان نے جس دستے کا اعلان کیا ہے اس میں خرم منظور کا شامل ہونا حیران کن ہے۔ خرم نے آج تک کوئی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا لیکن انہیں تجربہ کار احمد شہزاد کی جگہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں طلب کیا گیا ہے کہ جن کی کارکردگی کافی عرصے سے غیر تسلی بخش تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ خرم کو کپتان شاہد آفریدی کی سفارش پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔

29 سالہ خرم پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ اور ایک روزہ مقابلے تو کھیل چکے ہیں لیکن 2014ء کے بعد سے یہ سلسلہ بھی بند ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے لیے منتخب ہونے والے 100 کھلاڑیوں میں بھی خرم منظور کا نام شامل نہیں تھا لیکن اتنے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے ان کا انتخاب ہونے سے کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں جن کا جواب خرم کو میدان میں دینا ہوگا۔

لیام ڈاسن (انگلستان)

liam-dawson

ہمپشائر کاؤنٹی کی طرف سے لیام ڈاسن کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے انگلستان کی قومی ٹیم میں انتخاب نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کی وجہ دراصل کوچ ٹریور بیلس کا وہ بیان ہے جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے کبھی ڈاسن کو کھیلتے نہیں دیکھا۔ لیام ڈاسن انگلینڈ انڈر-19 کی قیادت کر چکے ہیں، جہاں انہوں نے خود کو بہترین اسپنر کے علاوہ ایک اچھا بلے باز بھی منوا چکے ہیں اور ان کے انتخاب کی وجہ پاکستان 'اے' کے خلاف متحدہ عرب امارات میں دکھائی گئی حالیہ کارکردگی تھی۔ کیونکہ بھارت میں حالات بھی کچھ امارات سے ملتے جلتے ہی ہوں گے اس لیے امید ظاہر کی گئی ہے کہ ڈاسن کی کارکردگی متاثر کن رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاسن ایک اچھے اسپنر، بیٹسمین اور فیلڈر ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی ٹی ٹوئنٹی میچز میں کارکردگی قابل ذکر نہیں۔ 73 مقابلوں میں صرف 15 کے اوسط سے 495 رنز اور محض 39 وکٹیں ایسی کارکردگی نہیں کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے ٹورنامنٹ کے لیے انتخاب کیا جائے۔

پون نیگی (بھارت)

pawan-negi

آسٹریلیا کے خلاف محدود اوورز کے مقابلوں میں نظر انداز کیے جانے کے بعد امیت مشرا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے بھی سلیکٹرز کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے، جنہوں نے اسپن باؤلنگ میں تجربہ کار ہربھجن سنگھ کا ساتھ دینے کے لیے پون نیگی کو ٹیم میں شامل کیا ہے، جو اپنا پہلا بین الاقوامی مقابلہ کھیلیں گے۔ لگتا ہے پون نیگی کے ستارے عروج پر ہیں کیونکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ٹیم کا حصہ بننے پر ان کی انڈین پریمیئر لیگ میں بھی راہیں ہموار ہوں گی۔

نیگی کی ٹیم میں شمولیت آل راؤنڈ کارکردگی کی بنیاد پر ہوئی ہے کیونکہ وہ اسپن باؤلنگ کے علاوہ چوکے اور چھکے لگانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ وجے ہزارے ٹرافی اور مشتاق علی ٹرافی میں وہ بہترین کارکردگی سے خود کو ثابت کر چکے ہیں۔ بہرحال، اہم اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی جگہ نیگی کی شمولیت حیران کن ضرور ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انہیں کوئی موقع بھی ملے گا یا وہ محض پانی کی بوتلیں میدان میں لانے کا کام ہی کریں گے۔

پیٹر نیول (آسٹریلیا)

peter-nevill

ایک روزہ اور ٹیسٹ میں بادشاہت کرنے والے آسٹریلیا کی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی زیادہ تر مایوس کن رہی ہے۔ 2016ء کے لیے جس ٹیم کا انتخاب کیاگیا ہے اس میں ایک 'حیران کن' نام ضرور شامل ہے، وکٹ کیپر پیٹر نیول جنہوں نے آج تک کوئی ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلہ نہیں کھیلا لیکن انہیں میتھیو ویڈ جیسے تجربہ کار کھلاڑی پر ترجیح دی گئی ہے۔ صرف 31 ٹی ٹوئنٹی میچز کا تجربہ رکھنے والے نیول کا بیٹنگ اوسط بھی بہت معمولی ہے اس کے باوجود وہ آسٹریلیا کے عالمی دستے کے واحد وکٹ کیپر بن گئے ہیں۔ بہرحال، نیول طویل دورانیے کی کرکٹ کا تجربہ ضرور رکھتے ہیں لیکن وہاں پیش کی گئی کارکردگی کی بنیاد پر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں انتخاب سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر وہ یہاں کارکردگی نہ دکھا سکے تو اس کا ان کی ٹیسٹ اور ایک روزہ کے لیے انتخاب پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔

ڈیل اسٹین (جنوبی افریقہ)

dale-steyn

شاید آپ کو یہ نام سن کر حیرت ہوئی ہے۔ آخر ڈیل اسٹین اس وقت دنیا کے تیز ترین اور بہترین باؤلر ہیں لیکن یاد رکھیں کہ طویل عرصے سے ڈیل اسٹین نے کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں کھیلا بلکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کے سیمی فائنل کے بعد سے اب تک کسی ٹی ٹوئنٹی میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی نہیں کی۔ پھر مورنے مورکل کا اخراج بھی حیران کن ہے کہ جنہوں نے گزشتہ آئی پی ایل میں بہترین کارکردگی دکھائی تھی لیکن وہ ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ بھارت نہیں جائیں گے بلکہ اسٹین روانہ ہوں گے کہ جو بارہا زخمی ہو چکے ہیں اور اس وقت بھی صد فیصد یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کھیل پائيں گے۔ ریکارڈ ان کے واقعی متاثر کن ہیں لیکن فارم اور صحت نہیں۔ اسٹین اپنی کارکردگی سے حیران بھی کر سکتے ہیں، اور اپنے مسائل کی وجہ سے مایوس بھی۔ دیکھتے ہیں جنوبی افریقہ کا یہ "جوا" کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔