ایشیا کپ2016ء، جائزہ تمام ٹیموں کی کارکردگی کا
ایشیا کپ بھارت کی شاندار کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ جہاں دفاعی چیمپئن سری لنکا اپنے زخم چاٹ رہا ہے وہیں پاکستان کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ اس وقت ملک کےکرکٹ حلقوں میں یہ بحث اپنے عروج پر ہے کہ آخر ایشیا کپ میں بدترین کارکردگی کا ذمہ دار کون ہے؟ اسباب کے تعین کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی ہے، وہ کارآمد ثابت ہوگی یا نہیں؟ایک بہت بڑے معرکے سے قبل ایک تھکا ماندہ اور ہارا ہوا لشکر ہے جو شکست کی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے پر ڈالنےمیں مصروف ہے۔ یہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل انتہائی غیر متوقع منظرنامہ ہے کہ جس کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دراصل ایشیا کپ میں صرف بھارت کی کارکردگی توقعات کے مطابق رہی، باقی سب نے غیر متوقع پرفارمنس دکھائی۔ بنگلہ دیش حیران کن طور پر پرجوش رہا اور فائنل تک پہنچا۔ پاکستان اور سری لنکا نے غیر متوقع طور پر اتنا برا کھیل پیش کیا کہ ان کا موازنہ صرف حالیہ پاکستان سپر لیگ کے کراچی کنگز اور لاہور قلندرز سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ آئیے، ایشیا کپ میں مقابل ٹیموں کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں:
پاکستان
آخر وہ کون سا وقت ہوگا جب پاکستان تمام تر تنازعات سے بھی پاک ہو کر کرکٹ کھیلے گا۔ ایشیا کپ کے لیے انتخاب کے مرحلے ہی سے معاملہ متنازع ہو چکا تھا۔ "دیگ کا دانہ" چکھنا ہے تو خرم منظور کو ہی دیکھ لیجیے، وہ کس کی پسند تھے، کس کے کہنے پر اور سب سے بڑھ کر کن صلاحیتوں کی بنیاد پر اس اہم ٹورنامنٹ کے حتمی دستے میں شامل ہوئے؟ یہ ابھی تک ایک معمہ ہے اور کوئی اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کوچ اور کپتان کے مابین اختلافات الگ خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ 28 فروری کو پاکستان کا پہلا مقابلہ ہی روایتی حریف بھارت کے ساتھ تھا کہ جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ بھارت کی بلے بازی بہت مضبوط ہے مگر گیندبازی اتنی معیاری نہیں لیکن جب پاکستان کے بیٹسمین میدان میں اترے توتہرے ہندسے تک بھی نہ پہنچ سکے۔ محض 83 رنز پرمنہ کے بل زمین پر گرے تو سمجھ آئی کہ صرف بلے بازی ہی نہیں بلکہ باؤلنگ میں بھی بھارت پاکستان سے کوسوں آگے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان کی باؤلنگ اس کی بیٹنگ جتنی ناقص نہیں۔ پورے دورے میں نہ ٹاپ آرڈر چلا، نہ ہی کھیلنا کسی اور کے بس کی بات دکھائی دی۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ہی فائنل کے ارمان ٹھنڈے پڑ گئے۔ جب سابق ایشین چیمپئن کو متحدہ عرب امارات کو شکست دینے میں جدوجہد کا سامنا کرنا پڑے تو ٹیم کی مجموعی حالت اور کیفیت کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
بلے بازوں کی مسلسل ناکامی ایک طرف، اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کے پیچھے تکنیکی لحاظ سے معیاری بیٹسمین دور دور تک نظر نہیں آتا اور جو موجود ہیں وہ تو بنگلہ دیش کی گیندبازی کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔ انضمام الحق اور محمد یوسف جیسے عظیم بلے بازوں کو نظر انداز کرکے گرانٹ فلاور پر اعتماد کرنا ہی ظاہر کرتا ہے کہ اصل مسئلہ ذہنی تنزلی ہے، جو میدانوں میں کارکردگی کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔
ایشیا کپ میں پاکستان کی ایک بڑی کمزوری جو کھل کر سامنے آئی وہ ناقص قیادت ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ کا 20 سالہ تجربہ رکھنے کے باوجود شاہد آفریدی محض چند گیندوں کے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ ایشیا کپ میں تو ان کی گیندبازی کے نقائص بھی کھل کر سامنے آئے۔ پھر وہ نہ باؤلرز کو ٹھیک سے لڑوا سکے اور نہ فیلڈرز کو استعمال کر سکے۔ اپنا پہلا ٹورنامنٹ کھیلنے والے محمد نواز کے مار کھانے کے باوجود اوورز دیے جاتے رہے اور اس معصوم کے کیریئر کو خطرے سے دوچار کردیا جبکہ تجربہ کار اور بہتر باؤلنگ کروانے والے شعیب ملک کو ایک، دو سے زیادہ مرتبہ گیند نہیں تھمائی گئی۔ درحقیقت شاہد آفریدی کو "مقدس گائے" بنا کر پوجنے سے بہتر ہے کہ انہیں سمجھایا جائے کہ آپ کی کرکٹ ختم ہو چکی ہے، اس لیے باعزت طریقے سے الگ ہو جائیں۔ لیکن لگتا ہے کہ وہ ایشیا کپ کے بعد پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں اور بڑا صدمہ دینے کے بعد ہی رخصت ہوں گے۔
بھارت
مہندر سنگھ دھونی، ویراٹ کوہلی، شیکھر دھاون، یووراج سنگھ، سریش رینا اور دیگر، ایسی بلے بازی کے ساتھ بھارت نے آغاز سے لے کر اختتام تک ایشیا کپ میں دھاک بٹھائے رکھی اور بغیر کوئی مقابلہ ہارے ثابت کیا کہ چیمپئن بننے کا اصل حقدار وہ ہے۔ بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا کو اتنی آسانی سے شکست دی کہ مقابلے کو مقابلہ کہنا مناسب نہیں لگتا۔ بھارت کی حالیہ کارکردگی کا ایک بہت بڑا اور مثبت پہلو ان کی گیندبازی میں آنے والا نکھار ہے۔ فاتح مزاج بلے بازوں اور باؤلرز کے ساتھ جب کپتان کی کارکردگی بھی مل جائے تو ایک چیمپئن ٹیم شکل پاتی ہے۔ دھونی نے اپنا پورا تجربہ ایشیا کپ میں استعمال کیا بلکہ خود آگے بڑھ کر بھی ٹیم کو سہارا دیا جیسا کہ فائنل میں آئے اور "ایک اور چھکے" کے ذریعے بھارت کو چیمپئن بنایا۔
بنگلہ دیش
ایشیا کپ کے دوران جتنا جوش و جذبہ ہمیں بنگلہ دیش کے پاس نظر آیا، وہ کسی کے پاس بالکل نہیں تھا۔ یقیناً اپنی ہی میدانوں پر اور اپنے تماشائیوں کی موجودگی میں ہمت و حوصلے بلند ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات یہی کمزوری بھی بن جاتے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں غیرضروری دباؤ بھی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن بنگلہ دیش نے ایک تجربہ کار ٹیم کی طرح اسے اپنی طاقت بنایا۔ ان کے کھلاڑیوں میں جیت کی لگن نظر آئی، اور کوئی بڑا ٹورنامنٹ جیتنے کی خواہش بھی شدید دکھائی دی۔ یہی وجہ ہےکہ پاکستان اور سری لنکا تو ایک طرف ایک دو لمحات میں تو میں بنگلہ دیش میں اس احساس کو بھارت سے زیادہ محسوس کیا گیا۔
ٹورنامنٹ کی کارکردگی دیکھیں تو بلے بازی میں بنگلہ دیش کا ٹاپ آرڈر کسی بھی بڑی ٹیم سے کم نہیں دکھائی دیا۔ تمیم اقبال، شبیر رحمٰن، محمود اللہ اور شکیب الحسن کی کارکردگی بالخصوص پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک مثال ہے۔ بنگلہ دیش نے پہلے دفاعی چیمپئن سری لنکا کو 147 کا ہدف حاصل نہ کرنے دیا، پر سابق چیمپئن پاکستان کو شکست دے کر "پرانے بدلے" چکائے اور یوں فائنل تک پہنچا۔ ٹورنامنٹ میں اسے صرف بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی، کہ جو فائنل میں بھی بنگلہ دیش کو زیر کرنے کے لیے کافی ثابت ہوا۔
سری لنکا
پانچ مرتبہ کے ایشیائی چیمپئن سری لنکا کے لیے ایشیا کپ 2016ء ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ چار میں سے تین مقابلوں میں شکست کھا جانا کسی بھی لحاظ سے سری لنکا کے شایان شان نہ تھا۔ اینجلو میتھیوز ، تلکارتنے دلشان، دنیش چندیال، تھیسارا پریرا اور لاستھ مالنگا جیسے 'عالمی معیار' کے کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے اتنی بری کارکردگی بہت مایوس کن بلکہ حیران کن بھی تھی۔ مہیلا جے وردھنے اور کمار سنگاکارا کے جانے کے بعد سری لنکا کو بلے بازی میں بہت سخت دھچکے پہنچے ہیں۔ لیکن پورے ٹورنامنٹ میں گیندبازی بھی بہت ناقص اور غیر معیاری دکھائی دی۔ اس لیے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے پہلے سری لنکا کو جلد از جلد اپنی باؤلنگ پر قابو پانا ہوگا۔ سری لنکا میں ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام خاصا موثر ہے اس لیے امید ہے کہ یہ کمی کوتاہی جلد پوری ہو جائے گی۔ پھر فیلڈنگ کے شعبے میں وہ بلاشبہ ایشیا کی سب سے مضبوط ٹیم ہے اور محض ایک، دو فتوحات ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں سری لنکا کے حوصلے بحال کر سکتی ہیں۔ جہاں لنکا کے شیر عالمی اعزاز کا دفاع کریں گے۔