دیار غیر میں لٹ گئے!!

0 1,046

پتہ تھا کہ نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز متحدہ عرب امارات سے مکمل طور پر مختلف ہوں گی اور وہاں کی وکٹوں کا برتاؤ بھی پاکستان کی ’’ہوم‘‘ کنڈیشنز سے مکمل طور پر الگ ہوگا، جہاں کنڈیشنز اور وکٹیں دونوں سیم اور سوئنگ بالنگ کیلئے سازگار ہوتی ہیں۔ ہیگلے اوول، کرائسٹ چرچ کے بارے میں یہ چرچے ہورہے تھے کہ وکٹ پر گھاس چھوڑی جارہی ہے جبکہ رہی سہی کسر ٹیسٹ میچ کے پہلے دن ہونے والی بارش نے پوری کردی۔ جس کے بعد یہ لازمی تھا کہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن جو کارکردگی پاکستانی ٹیم نے پہلی اننگز میں دکھائی اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ اس میدان پر کھیلے گئے آخری چار فرسٹ کلاس میچز میں تین مرتبہ پہلی اننگز میں بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں دوسو رنز بنانے میں ہی کامیاب ہوسکی تھیں۔ ہیگلے اوول کی وکٹ مشکل تھی جس پریہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کوئی ٹیم بیٹنگ کرتے ہوئے تین سو پلس اسکور کردے مگر پاکستان کی بیٹنگ لائن کیلئے 133پر دم توڑ دینا قطعی قابل قبول نہیں ہے۔

اس وکٹ پر بیٹنگ کرنے کیلئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت تھی جبکہ پہلا دن بارش کے سبب منسوخ ہونے کے باعث پاکستانی ٹیم کو منصوبہ بندی کرنے کیلئے مناسب وقت بھی مل گیا تھا مگر پاکستانی بیٹسمینوں نے بری کرکٹ اور خراب شاٹس کھیل کر ٹیم کو نقصان پہنچایا۔ اگر نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی پہلے بیٹنگ کرتی تو شاید کیویز بھی زیادہ اچھی کارکردگی نہ دکھا پاتے مگر ہوم ٹیم کے بیٹسمین اپنی وکٹ ایسے مخالف بالرز کے حوالے نہ کرتے جیسا کہ پاکستانی بیٹسمینوں نے کیا۔

پھر دوسری اننگز میں پاکستانی بیٹسمینوں نے اپنے اوپر حد سے زیادہ دباؤ طاری کرتے ہوئے رنز بنانے کی کوشش نہیں کی جو پہلے پچاس اوورز میں تین وکٹوں پر صرف 83رنز ہی بنا سکے جس کے بعد 66 اوورز میں صرف 129رنز 2رنزفی اوور سے بھی کم بنے ہیں اور یہی وہ وجہ ہے جس نے پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ میچ سے آؤٹ کردیا ہے کیونکہ اگر ان 66اوورز میں رن ریٹ ڈھائی سے تین بھی ہوتا تو اسکور میں چالیس سے پچاس رنز کا اضافہ ہوسکتا تھا جو گرین شرٹس کی برتری کو تین ہندسوں میں داخل کروادیتی۔ اگر پاکستانی بیٹسمینوں نے اتنی سست روی بیٹنگ سے کرنی تھی تو پھر اتنی وکٹیں ضائع نہیں ہونی چاہیے تھیں۔ دونوں اوپنرز نے مجموعی طور پر 230 گیندوں پر 38رنز بنائے جس پر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے مگر نقطہ اعتراض یہ ہے کہ اگر اظہر علی 173تک گیندوں پر کیوی بالرز کا مقابلہ کرکے وکٹ پر سیٹ ہوسکتا ہے تو پھر 31کے انفرادی اسکور پر وکٹ گنوانے کی کیا تُک بنتی ہے یا سمیع اسلم 18اوورز تک کریز پر قدم جمانے کے باوجود کیوں وکٹ کیپر کو کیچ تھما کر پویلین لوٹ جاتا ہے؟

انفرادی طور پر بات کریں تو بابر اعظم نے نہایت لاپرواہی سے لیگ اسٹمپ سے باہر گری ہوئی گیند کو چھیڑنے کی پاداش میں اپنی وکٹ گنوائی۔ یونس خان پاکستانی ٹیم کے سب سے زیادہ تجربہ کار بیٹسمین ہیں جنہوں نے ماضی میں نیوزی لینڈ میں عمدہ کارکردگی دکھائی ہے مگر کرائسٹ چرچ میں انہوں نے مایوس کیا جہاں دوسری اننگز میں وہ باؤنسر کا دفاع کرنے میں ناکام رہے لیکن پہلی اننگز میں آف اسٹمپ سے کوسوں دور گیند کو ’’کامیابی‘‘ کیساتھ سلپ کے فیلڈر کے ہاتھوں میں پہنچایا۔ کپتان مصباح الحق نے بھی کچھ نہیں کیا، پہلی اننگز میں کسی حد تک اپنی ذمہ داری نبھانے کے بعد ہمت ہارتے ہوئے گیند کو ہوا میں کھڑا کیا جبکہ دوسری باری میں باآسانی کیوی ٹیم کی منصوبہ بندی میں پھنس گئے۔ مصباح الحق جیسا کھلاڑی اتنی آسانی سے بالر اور مخالف کپتان کے جال میں پھنس جائے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور پھر یونس خان جیسے سینئر بیٹسمین نے جس انداز میں اپنی وکٹ گنوائی اس پر تنقید نہیں بلکہ صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اتنے سینئر کھلاڑی سے ایسے شاٹس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ سرفراز احمد ابھی تک ٹی20فارمیٹ سے باہر نہیں نکل پارہے جنہوں نے دوسری بار ی میں مڈل اسٹمپ پر آگے گری ہوئی گیند کو کراس کھیلنے کی کوشش میں آف اسٹمپ گنوائی۔

کرائسٹ چرچ ٹیسٹ میں پاکستانی بیٹسمینوں کی دونوں اننگز میں ناکامی نے گرین شرٹس کو شکست کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کیونکہ محض62رنز کی برتری کیساتھ پاکستان کی سات وکٹیں گر چکی ہیں جبکہ دو دن کا کھیل ابھی باقی ہے۔ اس لیے مسلسل دوسری شکست سامنے دکھائی دے رہی ہے جس نے مصباح الحق کے بطور کپتان پچاسویں ٹیسٹ کو بھی یادگار نہیں بننے دیا۔ اگر پاکستان کو نیوزی لینڈ کیخلاف کرائسٹ چرچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کا امکان بہت زیادہ ہے، تو یہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی مسلسل دوسری شکست ہوگی اور خاص طور پر نمبر ون ٹیم کا ’’گرز‘‘ اُٹھانے کے بعد مصباح الیون کی یہ کارکردگی باعث تشویش اور افسوس ناک ہے۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا کہ یہ کارکردگی پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے زوال کا آغاز ہے، مگر دیار غیر میں گرین شرٹس کیوی بالرز کے ہاتھوں لُٹ ضرور گئے ہیں اور یاد رہے کہ شاہینوں کا اگلا پڑاؤ آسٹریلیا کے میدان ہیں!

Trent-Boult