انگلینڈ ایک نہیں دو کوچز کی تلاش میں

0 1,000

ایک مایوس کُن سیزن مکمل ہونے کے بعد اِس وقت انگلینڈ کرکٹ بے حال ہے۔ اب آئندہ کے درپیش بڑے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ابتدائی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو روب کی کو مینیجنگ ڈائریکٹ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ لگایا گیا ہے اور اب ٹیسٹ اور محدود اوورز کی کرکٹ کے لیے علیحدہ ہیڈ کوچز کی آسامیوں کے لیے اشتہار بھی سامنے آ گیا ہے۔

حالیہ بد ترین کارکردگی اور آئندہ کا مصروف اور مشکل ترین شیڈول تو ایک طرف، اوپر سے نیچے تک تمام اہم اور کلیدی عہدے خالی ہیں۔ مینیجنگ ڈائریکٹر سے لے کر ٹیم کے کپتان تک۔ سال کے اوائل میں ایشیز میں بد ترین شکست کے بعد ہیڈ کوچ کرس سلوَر ووڈ نے استعفا دے دیا تھا جبکہ حال ہی میں دورۂ ویسٹ انڈیز میں بُری طرح ناکامی کے بعد ٹیسٹ کپتان جو روٹ بھی عہدہ چھوڑ گئے۔

یعنی نیا سیزن شروع ہوتے ہی انگلینڈ کرکٹ کے تمام قائدانہ عہدوں پر نئے افراد نظر آئیں گے۔ ٹیسٹ قیادت کے لیے بین اسٹوکس سب سے مضبوط امیدوار لگتے ہیں۔ امکان ہے کہ روب کی اِس ہفتے ہی ان کو کپتان بنانے کی تصدیق کر دیں گے۔

اس کے بعد ہیڈ کوچز مقرر ہوں گے۔ بورڈ نے چھ مئی تک درخواستیں طلب کی ہیں جبکہ انٹرویوز اس کے تین دن بعد ہوں گے۔ پھر جس کا بھی تقرر ہوا، اس کو فوری طور پر ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا کیونکہ 2 جون سے نیوزی لینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز شروع ہوگی۔

نیوزی لینڈ کا دورۂ انگلینڈ 2022ء

بمقابلہبتاریخبمقام
انگلینڈ نیوزی لینڈپہلا ٹیسٹ‏2 تا 6 جون 2022ءلارڈز
انگلینڈ نیوزی لینڈ دوسرا ٹیسٹ‏10 تا 14 جون 2022ء ناٹنگھم
انگلینڈ نیوزی لینڈ تیسرا ٹیسٹ‏23 تا 27 جون 2022ء لیڈز

فی الحال گیری کرسٹن، گراہم فورڈ اور سائمن کیٹچ ٹیسٹ کوچ کے عہدے کے لیے نمایاں ترین امیدوار ہیں۔

ویسے یہ دوسرا موقع ہے کہ انگلینڈ نے دونوں طرز کی کرکٹ کے لیے الگ الگ کوچز رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ماضی میں 2012ء سے 2014ء تک ایشلے جائلز انگلینڈ کے وائٹ بال کوچ تھے جبکہ اینڈی فلاور نے ٹیسٹ ٹیم کی کوچنگ سنبھالی ہوئی تھی۔

اب ایک مرتبہ پھر دو علیحدہ کوچز رکھنے کی وجہ آئندہ مصروف سیزن لگتی ہے۔ روب کی سمجھتے ہیں کہ دونوں قسم کی کرکٹ کی ضروریات مختلف ہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلا جائے گا جبکہ اگلے سال انگلینڈ نے 50 اوورز کے ورلڈ کپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنا ہے۔ یعنی نئے کوچز کا تقرر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ان عہدوں پر کون فائز ہوتا ہے اور اس کے انگلینڈ کرکٹ کی کارکردگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔