پاکستان گال میں بے حال، سیریز برابر ہو گئی

0 895

سری لنکا کے خلاف اہم سیریز جیتنے کے لیے پاکستان کے پاس دو راستے تھے: ایک، آخری روز باقی ماندہ 419 رنز بنائے یا پھر 90 اوورز کھیل کر میچ کو بے نتیجہ بنائے اور یوں سیریز ‏1-0 سے جیت لے۔ لیکن گال کے میدان پر کوئی ٹیسٹ بے نتیجہ ہو، ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے۔ مسلسل 18 میچز کے بعد اس ٹیسٹ کا نتیجہ بھی برآمد ہونا تھا، بس وہ پاکستان کے حق میں نہیں نکلا۔ سری لنکا نے شاندار باؤلنگ کی بدولت 246 رنز کی بڑی کامیابی حاصل کر کے سیریز ‏1-1 سے برابر کر دی۔

پاکستان کا دورۂ سری لنکا 2022ء- دوسرا ٹیسٹ

‏24 تا 28 جولائی 2022ء

گال انٹرنیشنل اسٹیڈیم، گال، سری لنکا

سری لنکا 246 رنز سے جیت گیا

سیریز ‏1-1 سے برابر

میچ کے بہترین کھلاڑی: دھاننجیا ڈی سلوا

سیریز کے بہترین کھلاڑی: پرباتھ جے سوریا

سری لنکا (پہلی اننگز) 378
دنیش چندیمل80137نسیم شاہ3-5818
اوشاڈا فرنینڈو5070یاسر شاہ3-8322
پاکستان (پہلی اننگز) 231
آغا سلمان62126رمیش مینڈس5-4721.1
امام الحق3254پرباتھ جے سوریا3-8037
سری لنکا (دوسری اننگز) 360-8ڈ
دھاننجیا ڈی سلوا109171نسیم شاہ2-4412.5
دیموتھ کرونارتنے61105محمد نواز2-7521
پاکستان (ہدف: 508 رنز) 261
بابر اعظم81146پرباتھ جے سوریا5-11732
امام الحق4990رمیش مینڈس4-10130

پاکستان نے پانچویں دن کا آغاز ایک وکٹ کے نقصان پر 89 رنز کے ساتھ کیا۔ چوتھے دن کم روشنی کی وجہ سے آخری گھنٹے بھر کا کھیل ضائع ہوا تھا، جس سے پاکستان کی امیدیں بندھ گئی تھیں۔ لیکن آخری روز نہ بادل آئے، نہ ہی وہ کارکردگی نظر آئی جس سے پاکستان میچ بچا پاتا۔ کھانے کے وقفے سے کچھ پہلے پاکستان صرف دو وکٹوں پر 176 رنز پر کھڑا تھا۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کی شراکت داری 79 رنز پر پہنچ چکی تھی اور سری لنکن کھلاڑیوں کے چہروں پر تشویش کے آثار نظر آتے تھے لیکن یک بیک فضا ہی بدل گئی۔

پرباتھ جے سوریا کی ایک خوبصورت گیند محمد رضوان کو غچہ دے گئی۔ وہ گیند چھوڑتے ہوئے کلین بولڈ ہوئے اور ساتھ ہی پاکستان کی بیٹنگ لائن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ پھر پاکستانی بلے باز 100 رنز بھی نہیں بنا پائے اور پوری ٹیم 261 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ جیتنے کے لیے نہ کھیلتے، ڈرا کی طرف ہی چلے جاتے، ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس قربان لیکن سیریز تو بچ جاتی؟ لیکن بابر-رضوان پارٹنرشپ ختم ہونے کے بعد ٹیم پاکستان صرف 23 اوورز کا کھیل پائی۔

پاکستان کے ہاتھ پیر ایسے پھولے کہ فواد عالم رن آؤٹ ہو کر پویلین واپس آئے، یعنی بس یہی کسر رہ گئی تھی۔ کھانے کے وقفے سے پہلے سلمان آغا بھی آؤٹ ہو گئے۔ یہ کوسال مینڈس کی حاضر دماغی تھی، جنہوں نے قریب کھڑے ہونے کے باوجود سلمان کا شاندار کیچ لیا۔

ٹیم پاکستان مکمل طور پر panic موڈ میں تھی۔ پاکستان کھانے کے وقفے کے بعد اسکور میں صرف 73 رنز کا اضافہ کر پایا اور میچ طشتری میں رکھ کر سری لنکا کو پیش کر دیا۔

بابر اعظم نے 146 گیندوں پر 81 رنز بنائے البتہ دوسرے اینڈ سے کوئی قابلِ ذکر اننگز نہیں کھیلی گئی۔ ویسے بابر کی اننگز بھی قسمت کی محتاج رہی۔ 34 رنز پر انہیں ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا گیا تھا، لیکن وہ ریویو پر فیصلہ اپنے حق میں کروانے میں کامیاب رہی۔ یہی نہیں بلکہ 78 رنز پر وہ سلپ میں کیچ ہوتے ہوتے بھی رہ گئے لیکن اس زندگی کا وہ کچھ خاص فائدہ نہ اٹھا سکے۔ امام الحق 49 رنز اور محمد رضوان 37 رنز دوسرے نمایاں ترین بیٹسمین رہے۔

یاد رکھیں، ٹیسٹ کرکٹ میں بیٹسمین میچ بچا سکتے ہیں لیکن کامیابی آپ کو باؤلرز دلواتے ہیں۔ یہ محدود اوور کی کرکٹ نہیں، یہاں جب تک حریف کی 10 وکٹیں حاصل نہ کی جائیں، بات نہیں بنتی۔ پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہا اور دونوں باریوں میں سری لنکا کے ٹیل اینڈرز نے پاکستان کو بہت پریشان کیا۔ آخرکار نتیجہ شکست کی صورت میں نکلا کیونکہ معجزے روز روز رونما نہیں ہوتے۔

اس شکست کے ساتھ ہی پاکستان کے ٹیسٹ چیمپیئن شپ کھیلنے کے امکانات کافی معدوم ہو چکے ہیں۔ وہ پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے سے پانچویں نمبر پر چلا گیا ہے اور اگر کوئی امید ہے تو وہ یہ کہ اپنے باقی ماندہ تمام ٹیسٹ میچز جیتنے ہیں، یعنی نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں کلین سوئپ کرنے ہوں گے۔

قبل ازیں، سری لنکا نے پہلی اننگز میں 378 رنز بنائے تھے جو کافی سے زیادہ تھے۔ شاہین آفریدی کی عدم موجودگی میں پاکستان کو ابتدائی وکٹیں حاصل کرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ اوپنرز اوشاڈا فرنینڈو اور کپتان دیموتھ کرونارتنے کی 92 رنز کی شراکت داری نے سری لنکا کو بہترین بنیاد فراہم کی یہاں تک کہ سری لنکا اپنی آخری چار وکٹوں پر 88 رنز کا اضافہ کر کے 378 رنز تک پہنچ گیا۔ دنیش چندیمل ایک مرتبہ پھر 80 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بیٹسمین رہے۔ نیروشان ڈکویلا نے 51 رنز بنائے جبکہ اپنا 100 واں ٹیسٹ کھیلنے والے اینجلو میتھیوز 42 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

سری لنکا کو 300 رنز تک محدود کرنے میں ناکامی کے بعد پاکستان کی پہلی اننگز مایوس کن انداز میں شروع ہوئی۔ گزشتہ ٹیسٹ کے ہیرو عبد اللہ شفیق صفر پر آؤٹ ہوئے اور بابر اعظم صرف 16 رنز پر پویلین سدھار گئے۔ یہی نہیں بلکہ امام الحق ، محمد رضوان اور فواد عالم سب کی وکٹیں چلی گئیں تو اسکور بورڈ پر موجود تھے صرف 119 رنز۔ یعنی اب فالو آن کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی۔

یہاں پر نوجوان آغا سلمان نے 62 رنز بنا کر پاکستان کو فالو آن کی ہزیمت سے بچا لیا۔ جہاں ابتدائی پانچ وکٹوں نے 119 رنز بنائے تھے، وہیں پاکستان کی آخری پانچ وکٹوں نے 112 رنز کا اضافہ کر کے پاکستان کو 231 رنز تک پہنچا دیا۔ یعنی ہمارے ٹیل اینڈرز بھی بلے بازوں سے بہتر کھیل گئے۔

لیکن پاکستان کو پہلی اننگز میں 147 رنز کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ اتنی بڑی برتری ملنے کے بعد سری لنکا پُر اعتماد تھا اور 117 رنز پر پانچ وکٹیں گرنے کے بعد بھی اس اعتماد میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔

اس کے مقابلے میں پاکستان کی باؤلنگ کافی کمزور دکھائی دی، جو حریف کی اننگز کا جلد از جلد خاتمہ کرنے میں ناکام ہوئی۔ سری لنکا کا لوئر مڈل آرڈر ایک مرتبہ پھر چلا۔ دیموتھ کرونارتنے کے 61 اور رمیش مینڈس کے 45 رنز کی اننگز تھی ہی، لیکن اصل ہیرو تھے دھاننجیا ڈی سلوا۔ جنہوں نے بڑے عرصے کے بعد کوئی سنچری بنائی۔ 171 گیندوں پر 109 رنز کی یہی اننگز اور چھٹی وکٹ پر 126 رنز کی شراکت داری تھی، جو پاکستان کی پہنچ سے بہت بہت دُور لے گئی۔

سری لنکا نے اپنی دوسری اننگز 360 رنز پر آٹھ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ ڈکلیئر کر دی اور پاکستان کو 508 رنز کا ہدف دیا۔

بلاشبہ پاکستان نے اسی میدان پر پچھلے ہفتے 342 رنز کا ہدف حاصل کیا تھا، لیکن 508 رنز؟ یہ تو عالمی ریکارڈ ہو جاتا۔ شائقین کو امیدیں تو بہت تھیں، خاص طور پر پچھلے مقابلے کی کارکردگی کی وجہ سے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان وہ ٹیسٹ بھی ہار جاتا اگر بابر اعظم اور عبد اللہ شفیق کی دلیرانہ اننگز نہ ہوتیں۔ خیر، اب اس ایک کامیابی پر اکتفا کریں اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کو اللہ حافظ کہہ دیں۔