این بیل رن آؤٹ تنازع؛ دھونی کی اسپورٹس مین اسپرٹ

7 1,055

انگلستان اور بھارت کے درمیان سیریز ہر لحاظ سے دنیائے کرکٹ کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ شاندار بلے بازی، تباہ کن باؤلنگ اور بہترین فیلڈنگ کے علاوہ تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں۔

این بیل کے متنازع رن آؤٹ کے بعد کھلاڑی میدان سے باہر جا رہے ہیں، جبکہ برقی اسکور کارڈ ان کے آؤٹ ہونے  کی تصدیق کر رہا ہے
این بیل کے متنازع رن آؤٹ کے بعد کھلاڑی میدان سے باہر جا رہے ہیں، جبکہ برقی اسکور کارڈ ان کے آؤٹ ہونے کی تصدیق کر رہا ہے

لارڈز میں کرکٹ کی تاریخ کے دو ہزارویں ٹیسٹ کے شاندار اختتام کے بعد جیسے ہی ٹرینٹ برج، ناٹنگھم میں دوسرا ٹیسٹ شروع ہوا تو دونوں ٹیموں کے درمیان گرما گرمی کا حقیقی آغاز ہو گیا۔ دوسرے روز وی وی ایس لکشمن کو آؤٹ نہ دینے کا تنازع جہاں میچ کی فضا کو مزید گرم کرتا دکھائی دے رہا تھا، وہیں تیسرے روز ایک عجیب و غریب معاملے نے ماحول کو مزید مکدر کر دیا، لیکن آفرین ہے بھارتی قائد مہندر سنگھ دھونی کو، جنہوں نے حق پر ہونے کے باوجود محض اسپورٹ مین اسپرٹ کو مدنظر رکھا اور صورتحال کو خوشگوار بنا دیا۔

انگلستان اپنی دوسری اننگز میں حریف ٹیم کو ہدف دینے کے لیے استحکام اختیار کر رہا تھا، عین اسی دوران چائے کے وقفے سے قبل آخری گیند پر انگلش بلے باز ایون مورگن نے ڈیپ اسکوائر کی جانب شاٹ کھیلا۔ فیلڈر پروین کمار اس کی جانب دوڑے اور رسی سے کچھ پہلے گیند کو جا لیا۔ دوسرے اینڈ پر موجود این بیل یہ سمجھے کہ یہ چوکا ہو گیا ہے اور ساتھ میں چائے کا وقفہ بھی۔ اس لیے اپنا رن مکمل کیے بغیر ہی لوٹنے لگے۔ بھارتی فیلڈر نے موقع دیکھتے ہوئے بیلز اڑا دیں اور رن آؤٹ کی اپیل کی اور قانون کے مطابق، اور تیسرے امپائر سے رجوع کرنے کے بعد، فیصلہ دیتے ہوئے امپائرز نے انہیں آؤٹ بھی قرار دیا۔ وہ اس وقت 137 رنز پر کھیل رہے تھے۔

یہ ایک ایسی سیریز میں نیا تنازع پیدا کرنے والی بات تھی جو درحقیقت نئے عالمی نمبر ایک کا تعین کرے گی۔ اسی میچ کے دوران وی وی ایس لکشمن کے بلے پر ویزلین کا معاملہ ابھی گرم تھا لیکن یہ نیا تنازع دونوں ممالک کے کرکٹ تعلقات کو نئے مسائل سے دوچار کر سکتا تھا۔ گو کہ اسپورٹس مین اسپرٹ کچھ اور کہتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھارتی فیلڈرز نے کچھ غلط نہ کیا۔ یہ این بیل کی بہت بڑی غلطی تھی، جو آؤٹ ہونے کے بعد اصرار کرتے رہے کہ امپائر اسد رؤف نے چائے کے وقفے کا اعلان کردیا تھا، اور اس غلطی کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔ ری پلے سے بھی ظاہر ہو رہا تھا کہ امپائر نے وقفے کا اعلان نہیں کیا تھا۔

کھلاڑی میدان سے باہر آئے، تماشائیوں کی جانب سے بھارتی ٹیم پر آوازے کسے گئے جبکہ بیل کا خیرمقدم کیا گیا۔

بہرحال، دن کے دوسرے سیشن کے ڈرامائی انداز میں اختتام کے بعد ابھی ایک اور موڑ باقی تھا۔ چائے کے وقفے کے دوران بھارت کے قائد مہندر سنگھ دھونی نے ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے اپنی اپیل واپس لے لی اور یوں جب وقفے کے بعد کھیل شروع ہوا تو این بیل دوبارہ میدان میں موجود تھے۔ بعد ازاں انہوں نے 150 رنز مکمل کیے اور بالآخر 159 کے انفرادی اسکور پر یووراج سنگھ کا شکار ہو کر پویلین لوٹ گئے۔

بیل کی اننگ بھارت کے لیے اور زیادہ خطرے کا باعث تو نہیں بنی، لیکن مہندر سنگھ دھونی نے ثابت کر دیا کہ بھارت ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی نمبر ایک اور ایک روزہ کرکٹ میں چیمپئن کیوں ہے؟ انہوں نے اعلیٰ و برتر اخلاق کا مظاہرہ کیا اور دل جیتے ہیں۔

بھارتی قائد کا یہ اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کوئی نیا نہیں ہے، اس سے قبل اکتوبر 1987ء کو قذاقی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے عالمی کپ کے میچ میں ویسٹ انڈیز کے کورٹنی واش نے ایک شاندار مثال قائم کی تھی۔ انہوں نے اس وقت جب پاکستان کو آخری گیند پر صرف 2 رنز کی ضرورت تھی، سلیم جعفر کو گیند پھینکے جانے سے قبل ہی کریز سے نکلنے کے باوجود صرف تنبیہ پر اکتفا کیااور انہیں رن آؤٹ نہیں کیا۔ بعد ازاں ویسٹ انڈیز میچ ہار گیا۔

اس کے علاوہ 1989ء میں پاکستان کے خلاف میچ میں امپائر نے بھارت کے جارح مزاج بلے باز کرش سری کانت کو ایل بی ڈبلیو قرار دیا جس پر وہ بہت برافروختہ ہوئے اور وہیں میدان میں ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ گیند پہلے بلے سے لگی ہے اور پھر بوجھل قدموں کے ساتھ واپس جانے لگے۔ پاکستان کے کپتان عمران خان، جو اصول پسند تھے، نے امپائر سے مشورے کے بعد سری کانت کو واپس میدان میں بلا لیا۔ یوں عمران نے ایسی مثال قائم کی جو "شرفاء کے کھیل" میں بہت کم ملتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وقار یونس نے اگلی ہی گیند پر سری کانت کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ کرادیا۔

بہرحال، دھونی کے اس فیصلے نے دنیائے کرکٹ خصوصاً بھارت-انگلستان کرکٹ تعلقات کو ایک بہت بڑے تنازع میں جانے سے بچا لیا ہے جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔