انگلستان کی نظریں وائٹ واش پر ہونی چاہئیں؛ جیفری بائیکاٹ
سابق انگلش اوپننگ بیٹسمین اور معروف کمنٹیٹر جیفری بائیکاٹ نے کہا ہے کہ انگلستان کو اب اپنی نظریں وائٹ واش پر مرکوز رکھنی چاہئیں البتہ اسے اپنی کمزوریوں پر بھی قابو پانا ہوگا۔
معروف برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے لیے لکھے گئے اپنے کالم میں انہوں نے کہا کہ گو کہ انگلستان فتوحات کی راہ پر گامزن ہے لیکن اس میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ انہوں نے خصوصاً ایلسٹر کک اور اینڈریو اسٹراس کی بلے بازی اور گریم سوان کی باؤلنگ کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ تینوں اب تک بھرپور کارکردگی پیش نہیں کرپائے بلکہ میں نے گریم سوان کو ٹرینٹ برج ٹیسٹ جیسی گھٹیا باؤلنگ کراتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ انہیں نپی تلی اور دفاعی باؤلنگ کے ذریعے رنز کے بہاؤ کو روکنا چاہیے تاکہ سیمرز کو وقفہ ملے اور ان وہ زیادہ دباؤ کا شکار نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایون مورگن کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان عائد ہے۔ انہوں نے سیریز کا آغاز مسلسل تین ناکام اننگز کے ساتھ کیا لیکن ٹرینٹ برج کی دوسری اننگ میں سریش رائنا کی بے ضرر اسپن باؤلنگ اور پرانی گیند کے ساتھ تھکے ہارے بھارتی سیمرز کے خلاف 70 رنز بنائے۔ پھر جیسے ہی نئی گیند آئی وہ پویلین چل دیے۔ وہ صرف دو گیندیں ٹھیر سکے۔ گو کہ ان کی کارکردگی اچھی ہے لیکن انہیں نئی گیند پر کھیلنا ہوگا۔
جیفری بائیکاٹ نے انگلستان کو مشورہ دیا کہ وہ زخمی جوناتھن ٹراٹ کی جگہ ایجبسٹن ٹیسٹ میں بلے باز کے بجائے ایک اور سیمر کھلائے۔ انہوں نے انگلش کوچ اینڈی فلاور اور کپتان اینڈریو اسٹراس کو کہا کہ وہ کرس ٹریملٹ کو شامل کر کے ایک باؤنسی پچ بنوائيں اور چار سیمرز کے ساتھ میدان میں اتریں۔ انگلش سیمرز بھارتی حریفوں کے مقابلے میں زیادہ تیز اور جارح مزاج ہیں۔ جبکہ بھارتی سیمرز درمیانی رفتار کے حامل ہیں اور نئی گیند سے تو اچھی باؤلنگ کرا لیتے ہیں لیکن جیسے وہ پرانی ہو جاتی ہے انگلش بلے بازوں کے لیے وہ کوئی مسئلہ نہیں کھڑا کر پا رہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ این بیل اور کیون پیٹرسن نے دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے روز بھارتی باؤلنگ کا جنازہ نکال دیا۔ تیسرے روز کے آغاز پر بھارت کی فتح کے امکانات روشن تھے کیونکہ 24 پر انگلستان کے دو کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو 43 رنز کے خسارے کے علاوہ ان کے اہم ترین بلے باز جوناتھن ٹراٹ بھی زخمی تھے۔
بھارتی ٹیم کے حوالے سے جیفری نے کہا کہ راہول ڈریوڈ، وی وی ایس لکشمن اور سچن ٹنڈولکر بلاشبہ بہت اچھے کھلاڑی ہیں اور وہ رنز بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن باقی تمام کھلاڑی شارٹ پچ گیندوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس لیے صرف تین بلے بازوں کے ساتھ ٹیسٹ میچ جیتنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹ جاننے والا ہر فرد جانتا ہے کہ چند بھارتی بلے باز سینے، پسلیوں اور گردن کی جانب اٹھنے والی گیندوں کو درست انداز میں نہیں کھیل پاتے۔ اس کی ایک مثال ٹرینٹ برج میں سریش رائنا کی رہی۔ جنہوں نے گیند کی جانب سرے سے دیکھا ہی نہیں اور جلد بازی میں گیند کو ہوا میں اچھال بیٹھے اور فائن لیگ پر دھر لیے گئے۔ یووراج سنگھ نے جدوجہد کی لیکن پہلا باؤنسر کھانے کے بعد ان کے بائیں ہاتھ میں شدید تکلیف میں تھے۔ مہندر سنگھ دھونی بھی بری فارم کا شکار ہیں۔ ابھینو مکنڈ نوجوان کھلاڑی ہیں اور انہوں نے لارڈز اور ٹرینٹ برج جیسی پچ کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انگلستان بھرپور پوزیشن میں ہے اور اب اس کی نظریں بھارت کو 4-0 سے ہرانے پر مرکوز ہونی چاہئیں۔