ایکشن مشکوک قرار دیا گیا تو بورڈ نے تنہا چھوڑ دیا؛ ٹیسٹ کرکٹر شبیر احمد کا خصوصی انٹرویو

1 1,079

پاکستان کو دنیا کے تیز اور عمدہ ترین گیند بازوں کی نرسری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھتے ہی پاکستان نے تیز گیند بازوں کے ذریعے چہار سو اپنی دھاک بٹھائی۔ قومی کرکٹ ٹیم کے پہلے غیر ملکی دورے میں فضل محمود کی عمدہ کارکردگی نے اعلان کیا کہ اس شعبے میں پاکستان کا نام تادیر روشن رہے گا۔ سرفراز نواز، عمران خان، وقار یونس اور وسیم اکرم جیسے عظیم باؤلرز پیدا کرنے والی سرزمین پر ایک اور نام مختصر عرصے کے لیے جگمگایا وہ ہے شبیر احمد۔

شبیر احمد نے پہلے ہی ٹیسٹ میں 8 وکٹیں حاصل کر کے اپنی دھماکے دار آمد کا اعلان کیا تھا (تصویر: AFP)
شبیر احمد نے پہلے ہی ٹیسٹ میں 8 وکٹیں حاصل کر کے اپنی دھماکے دار آمد کا اعلان کیا تھا (تصویر: AFP)

شبیر احمد وسیم اور وقار یونس کے آخری ایام میں قومی منظرنامے پر نمودار ہوئے اور 23 سال کی عمر میں اپنے پہلے ہی بین الاقوامی میچ میں تین وکٹیں حاصل کر کے روشن مستقبل کی نوید سنائی۔ وسیم اکرم، وقار یونس، مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق جیسے باؤلرز کی موجودگی میں کسی باؤلر کا پاکستان کرکٹ ٹیم میں جگہ برقرار رکھنا شاید دنیا کا سب سے مشکل کام ہو اس لیے شبیر احمد مستقل مقام حاصل نہ کر پائے تاہم 2003ء میں ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی بار موقع ملتے ہی انہوں نے خوب جان لڑائی اور محض 10 ٹیسٹ میچز میں 50 وکٹیں حاصل کر کے قومی ریکارڈ قائم کیا۔

10 ٹیسٹ اور 32 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے طویل قامت شبیر احمد کو اپنی سوئنگ پر بہت عبور حاصل تھا۔ اسی کی بدولت انہوں نے 51 ٹیسٹ اور 33 ایک روزہ وکٹیں حاصل کیں۔ تاہم باؤلنگ ایکشن مشتبہ قرار دیے جانے کے بعد ایک سالہ پابندی نے اُن کا بین الاقوامی ختم کر دیا اور وہ دوبارہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں مستقل جگہ نہ پا سکے تاہم قومی سرکٹ میں اور بین الاقوامی سطح پر کلب ٹی ٹوئنٹی کرٹک میں انہوں نے خوب نام کمایا۔

اب جبکہ چند روز بعد فیصل بینک ٹی ٹوئنٹی کپ 2011ء شروع ہونے جا رہا ہے تو انہی شبیر احمد کو ملتان ٹائیگرز کی قیادت سونپی گئی ہے۔ کرک نامہ نے اس اہم موقع پر شبیر احمد سے آپ کے لیے خصوصی گفتگو کی ہے جس میں انہوں نے اپنی یادیں بھی شیئر کی ہیں اور احساسات بھی بیان کیے ہیں۔

کرک نامہ: شبیر احمد، فیصل بینک ٹی ٹوئنٹی کپ 2011ء میں آپ ملتان کی قیادت کریں گے، اپنی ٹیم کی کامیابی کے کتنے امکانات سمجھتے ہیں؟

شبیر احمد: کرکٹ میدان کا کھیل ہے اور جو میدان میں کارکردگی دکھاتا ہے جیت اُسی کے نام رہتی ہے۔ اس لیے بلند و بانگ دعووں کے بجائے کارکردگی پر یقین رکھیں گے اور ان شاء اللہ ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔

کرک نامہ: گزشتہ سال لاہور لائنز کی جانب سے کھیل کر قومی ٹی ٹوئنٹی کپ حاصل کیا، کیا احساسات رہے؟

شبیر احمد: 2010ء میں قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ جیتنا ایک یادگار لمحہ تھا۔ وہاب ریاض کے بعد ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں میں نے حاصل کی تھیں۔ لاہور کی ٹیم بہت مضبوط تھی، جس میں محمد یوسف، عبد الرزاق، وہاب ریاض اور عمر اکمل جیسے نام شامل تھے۔ پوری ٹیم نے بہترین کارکردگی دکھائی اور صلہ ٹورنامنٹ جیتنے کی صورت میں ملا۔

کرک نامہ: اس سال بھی لاہور لائنز کی ٹیم بہت مضبوط ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ لاہور لائنز اور ملتان ٹائیگرز کے درمیان فائنل میں ٹکراؤ ہوگا؟

شبیر احمد: مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر ایسا ہو، ملتان ٹائیگرز اگر فائنل تک رسائی حاصل کر لے تو میرے لیے اس سے بڑی کوئی بات نہیں ہوگی۔ پھر مقابلہ لاہور جیسی مضبوط ٹیم سے، میرے خیال میں مدتوں یاد رہنے والا میچ ہوگا۔

باؤلنگ ایکشن مشتبہ قرار دیے جانے کے بعد شبیر احمد کو ایک سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا، اور ان کا بین الاقوامی کیریئر ختم ہو گیا (تصویر: AFP)
باؤلنگ ایکشن مشتبہ قرار دیے جانے کے بعد شبیر احمد کو ایک سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا، اور ان کا بین الاقوامی کیریئر ختم ہو گیا (تصویر: AFP)

کرک نامہ: اب آپ سے کچھ یادیں شیئر کرتے ہیں، آپ نے محض 10 مقابلوں میں 50 وکٹیں حاصل کر کے قومی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ ریکارڈ بنا کر کیسا محسوس ہوا تھا؟

شبیر احمد: 2005ء میں انگلستان کے دورۂ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ ملتان میں ہوا تھا، وہاں میں نے پہلی اننگز میں 4 وکٹیں حاصل کر کے یہ سنگ میل عبور کر لیاتھا۔ مجھے میدان سے واپس آتے ہی بتایا گیا کہ تیز ترین 50 وکٹیں مکمل کر کے میں نے وقار یونس کا ریکارڈ برابر کر دیا ہے۔ یقین جانیں بہت خوشی ہوئی تھی اور زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ میرا نام وقار یونس جیسے لیجنڈ کھلاڑی کے ساتھ ریکارڈ بک میں لکھا جائے گا۔

کرک نامہ: لیکن وہی ٹیسٹ آپ کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا، آپ کا ایکشن مشتبہ قرار دے دیا گیا اور پھر ایک سال کی پابندی لگا دی گئی۔ اس واقعے نے آپ کے کیریئر پر کیسے اثرات مرتب کیے؟

شبیر احمد: یہ میرے زندگی کے افسوسناک ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ میں بھرپور فارم میں تھا اور اس کا اظہار پہلی اننگز میں 4 وکٹوں کے حصول سے بھی ہو رہا تھا لیکن میچ کے بعد میرا باؤلنگ ایکشن مشتبہ قرار دے دیا گیا اور بعد ازاں تحقیقات کے بعد ایک سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ ایک سال میں دوسرا موقع تھا کہ میرا ایکشن رپورٹ ہوا اور یہی پابندی کی وجہ بنی۔ اس پابندی نے میرے کیریئر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، میں دوبارہ کبھی بین الاقوامی کرکٹ میں واپس نہ آ سکا۔ ایک بات کہنا چاہوں گا کہ بیرون ملک اس طرح کے معاملات ہوتے ہیں تو اس میں ملک کا بورڈ کھلاڑی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس نازک صورتحال میں قومی کرکٹ بورڈ نے بھی مجھے تنہا چھوڑ دیا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے سامنے اسٹینڈ نہیں لیا۔ نتیجہ بین الاقوامی کیریئر کے اختتام کی صورت میں نکلا۔

کرک نامہ: ایک روزہ میچز کے مقابلے میں آپ کا ٹیسٹ کیریئر بہت عمدہ رہا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

شبیر احمد: ٹیسٹ کرکٹ ہی اصل کرکٹ ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ٹیسٹ کرکٹ ہی بیٹسمین اور باؤلر کا حقیقی ٹیسٹ ہے۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی طرز کی مختصر کرکٹ میں تو باؤلرز یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ رنز نہ بننے دینے، یا پھر حریف بلے باز بھی رنز بنانے کی جلدی میں وکٹ دے بیٹھتا ہے۔ ٹیسٹ میں ایسا معاملہ نہیں ہے وہ ایک ایک وکٹ کے لیے ہر گیند پر جان مارنا پڑتی ہے۔ میں ٹیسٹ کرکٹ کو کھلاڑی کی صلاحیت کا اصل امتحان سمجھتا ہوں اور اپنے مختصر کیریئر میں میں نے ٹیسٹ کرکٹ ہی کو مقدم جانا اور اس میں اچھی کارکردگی دکھائی۔

کرک نامہ: بھارت میں انڈین کرکٹ لیگ (آئی سی ایل) بھی کھیلی اور اپنی ٹیم چنئی سپر اسٹارز کو ٹائٹل بھی جتوایا۔ بھارت میں کھیلنے کا تجربہ کیسا رہا اور وہاں کے ماحول کو کیسا پایا؟

شبیر احمد: بھارتی عوام میں کرکٹ کا جنون بہت ہے اور یہی جوش و جذبہ وہاں کی کرکٹ کی جان ہے۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی تو درکنار طویل طرز کی کرکٹ میں بھی پانچوں دن اسٹیڈیم بھرے ہوتے ہیں۔ وہاں کھلاڑیوں کی عزت بھی بہت زیادہ ہے۔ آپ ابھی حالیہ مثال دیکھ لیں، بھارت انگلستان میں تمام میچز ہار کر وطن واپس لوٹا ہے ، ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں پہلا مقام بھی کھویا اور ون ڈے میں بھی رینکنگ میں تنزلی ہوئی لیکن اس کے باوجود عوام نے بھی ٹیم کی حوصلہ شکنی نہیں کی اور کرکٹ بورڈ بھی ٹیم کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے شکست کی وجوہات جاننے کے لیے ابھی تک تحقیقات کا اعلان نہیں کیا ہے، گو کہ یہ کوئی حوصلہ افزاء امر نہیں، لیکن میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سے اندازہ لگائیں کہ وہ اندھا دھند ایکشن کے قائل نہیں۔ گزشتہ سال پاکستان آسٹریلیا میں بدترین شکست سے دوچار ہوا تھا تو فوراً ہی تمام کھلاڑیوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں اور بعد میں اِن کھلاڑیوں کو واپس بھی بلا لیا گیا، تو ایسا ایکشن لینے کا کیا فائدہ ہوا؟ بہرحال، میں کہہ رہا تھا کہ بھارت کے عوام کرکٹ بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں اور ٹی ٹوئنٹی انہیں تفریح کا یہ بھرپور موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک روزہ مقابلوں میں بھی میدان ویران نظر آتے تھے، ٹیسٹ میں تو اِکا دُکا تماشائی ہی میدان کا رخ کرتے تھے، اس میں جہاں ایک جانب پاکستان کرکٹ بورڈ ذمہ دار تھا کہ وہ میدانوں میں اچھی سہولیات فراہم نہیں کرتا تھا وہیں میڈیا کا بھی ہاتھ رہا کہ اس نے تماشائیوں کو کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کرکٹ کے میدانوں کا رخ کرنے کی تلقین نہیں کی۔

کرک نامہ: اب آپ سے آخری سوال کے ساتھ اجازت چاہیں گے، اپنے کیریئر کا یادگار ترین لمحہ کرک نامہ کے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں گے؟

شبیر احمد: کیریئر میں بہت سارے یادگار لمحات آئے لیکن سب سے زیادہ قابل فخر لمحہ جون 2005ء میں دورۂ ویسٹ انڈیز میں آیا جب کنگسٹن، جمیکا میں کھیلے گئے ٹیسٹ میں عظیم بلے باز برائن لارا کو آؤٹ کیا۔ لارا پہلی اننگز میں 153 رنز بنا چکے تھے اور بالآخر میرا نشانہ بنے۔ اس میچ میں، میں نے دونوں اننگز میں 4،4 وکٹیں حاصل کیں اور میری و دیگر کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کی بدولت پاکستان میچ جیت کر سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوا۔ بدقسمتی سے اُس میچ کے بعد میں صرف ایک میچ ہی کھیل پایا، نومبر میں انگلستان کے خلاف بدقسمت ملتان ٹیسٹ۔ جس کے بعد میرا ایکشن مشتبہ قرار پایا اور بالآخر ایک سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں دوبارہ کبھی ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں واپس نہ آ سکا۔

کرک نامہ: شبیر احمد، ہمیں اپنا قیمتی وقت دینے کا بہت بہت شکریہ۔