ایک ٹیسٹ 10 لاکھ پاؤنڈز میں فکس کیا جا سکتا ہے؛ مظہر مجید کے ہوشربا انکشافات
برطانیہ کی عدالت میں پاکستان کے کھلاڑیوں پر بدعنوانی و دھوکہ دہی کے مقدمے کی سماعت کے چوتھے روز زبردست انکشافات ہوئے، جن کے مطابق قضیہ سامنے لانے والے اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' سے وابستہ صحافی مظہر محمود کو سٹے باز مظہر مجید نے بتایا تھا کہ ایک ٹیسٹ مقابلہ ایک ملین پاؤنڈز میں فکس کیا جا سکتا ہے، انہوں نے وسیم اکرم، وقار یونس، اعجاز احمد اور معین خان کو میچ فکسنگ میں ملوث اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کو اسپاٹ فکسنگ سے سب سے زیادہ پیسے کمانے والے کھلاڑی قرار دیا۔
لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں پاکستان کے تین کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کے خلاف بدعنوانی و دھوکہ دہی کے مقدمے کے چوتھے روز کی سماعت سوموار کو ہوئی جس میں ذرائع ابلاغ کی دنیا کی بزرگ شخصیت روپرٹ مرڈوک کا قائم کیا گیا 'نیوزآف دی ورلڈ'، جو چند ماہ قبل فون ٹیپ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے بعد بند ہو چکا ہے، کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف خفیہ آپریشن کرنے والے مظہر محمود عدالت میں پیش ہوئے اور اس وقت کے کپتان سلمان بٹ اور تیز گیند باز محمد آصف کے خلاف ثبوت پیش کیے۔ عدالت میں سٹے باز مظہر مجید اور رپورٹر مظہر محمود کے درمیان ہونے والی کی آڈیو ریکارڈنگ پیش کی گئی، جو خفیہ طور پر تیار کی گئی تھی۔
آڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے مذکورہ دورۂ انگلستان میں ایک روزہ یا ٹی ٹوئنٹی سیریز کے ایک میچ کا نتیجہ بھی پہلے سے طے شدہ (فکس) تھا۔ آڈیو میں ٹیسٹ مقابلے کا ذکر نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کے بہترین دوست سلمان بٹ تھے جنہوں وہ طویل عرصے تک قائد کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جبکہ محدود اوورز کے دستے کی قیادت شاہد آفریدی کے پاس تھی جو مظہر مجید کی ناپسندیدہ ترین شخصیت تھے۔
گفتگو میں 36 سالہ مظہر مجید نے صحافی کو بتایا ہے کہ کرکٹ میں میچ فکسنگ عرصہ دراز سے جاری ہے اور ماضی کے کئی پاکستانی کھلاڑی بھی اس میں ملوث رہے ہیں، اس ضمن میں انہوں نے وسیم اکرم، وقار یونس، اعجاز احمد اور معین خان کے نام لیے۔ ٹیپ میں مظہر مجید نے کہا کہ اس دھندے میں بہت بہت زیادہ پیسہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھیل کے مخصوص حصے کے دوران شرط لگانے پر 50 ہزار سے 80 ہزار پاؤنڈز تک لاگت آتی ہے جبکہ نتیجہ تبدیل کرنے کے لیے ٹی ٹوئنٹی کی قیمت 4 لاکھ پاؤنڈز ، ایک روزہ کی ساڑھے 4 لاکھ پاؤنڈز جبکہ صورتحال کے مطابق ٹیسٹ کی قیمت ایک ملین یعنی 10 لاکھ پاؤنڈز تک جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھارت میں ایک رابطے کے ذریعے یہ تمام معاملات طے کرتے ہیں۔
سلمان بٹ اور محمد آصف نے عدالت میں تمام الزامات کی تردید کی۔
گفتگو میں مظہر مجید نے مزید دعویٰ کیا کہ آسٹریلیا کے کھلاڑی مخصوص اوورز میں طے شدہ کام (بریکٹ) کرتے ہیں، جیسا کہ کتنے رنز بنیں گے وغیرہ۔ ٹیپ میں کہا گیا ہے کہ آسٹریلیا کے کھلاڑی سب سے بڑے سٹے باز ہیں، وہ ایک کھیل میں 10 بریکٹ بھی لگا جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈھائی سال سے پاکستانی ٹیم سے منسلک ہیں اور بہت زیادہ پیسہ بنا چکے ہیں، اور اس کے ذریعے برطانیہ میں بڑی جائیدادیں حاصل کر چکے ہیں۔
مظہر مجید نے آڈیو ٹیپ میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہالی ووڈ کے فلمی ستارے بریڈ پٹ، سابق عالمی نمبر ایک ٹینس کھلاڑی راجر فیڈرر کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے مظہر محمود کو بتایا کہ وہ 10 پاکستانی کھلاڑیوں کے مینیجر ہیں اور ساتھ ساتھ متعدد بھارتی کھلاڑیوں، آسٹریلیا کے تیز گیند باز ناتھن بریکن، اور ویسٹ انڈیز کے کرس گیل کے بھی مینیجر رہ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ سابق انگلش کھلاڑیوں مائیک گیٹنگ، فل ٹفنل، جیفری بائیکاٹ، پاکستانی قائد عمران خان اور آئی پی ایل کے سابق کمشنر للت مودی کے ساتھ بہت اچھی دوستی رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ سے ملاقات کر کے ایک قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے انعقاد کا مطالبہ کیا تھا اور ساتھ ساتھ انہوں نے سابق صدر پاکستان پرویز مشرف سے ملاقات کا بھی حوالہ دیا۔ مظہر مجید کا کہنا تھا کہ مذکورہ بالا کھلاڑیوں کے علاوہ میری بھارت کے ہربھجن سنگھ اور یووراج سنگھ اور آسٹریلیا کے بریٹ لی اور رکی پونٹنگ تک بھی رسائی ہے۔
صحافی مظہر محمود نے بھارت کی ایک کاروباری شخصیت کی حیثیت سے مظہر مجید سے ملاقات کی تھی ، اور متحدہ عرب امارات میں ایک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا جو بقول اُن کے متحدہ عرب امارات کا قومی فضائی ادارہ اتحاد ایئرویز اسپانسر کرے گا۔
مقدمے کی سماعت جاری ہے۔
کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل گزشتہ سال پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلستان کے دوران اس وقت منظرعام پر آیا جب دونوں ٹیمیں چوتھے و آخری ٹیسٹ میں مدمقابل تھیں۔ اس کے نتیجے میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے پہلے تینوں کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو کسی بھی سطح پر کرکٹ میں حصہ لینے سے روک دیا اور بعد ازاں تینوں پر کم از کم 5،5 سال کی پابندیاں عائد کر دیں۔ اگر برطانیہ کی عدالت میں تینوں پر بدعنوانی و دھوکہ دہی کے جاری مقدمے میں جرم ثابت ہو جاتا ہے تو انہیں زیادہ سے زیادہ 7 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔