نیوزی لینڈ کے ارادے خطرناک، آسٹریلیا ناتجربہ کار باؤلرز سے پریشان
ماضی قریب کا ناقابل تسخیر آسٹریلیا شین وارن، گلین میک گرا اور ایڈم گلکرسٹ جیسے کھلاڑیوں کے ریٹائر ہوتے ہی آہستہ آہستہ زوال کی منازل طے کرتے ہوئے اب ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں چوتھی پوزیشن پر پہنچ چکا ہے اور اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ سال بھر میں ایک دو ٹیسٹ ہی جیت پا رہا ہے۔
آسٹریلیا کے لیے سال 2011ء کا آغاز ایشیز میں ذلت آمیز شکست کے ساتھ ہوا جس میں انگلستان نے اسے 3-1 کی ہزیمت سے دوچار ہوا اور جن تینوں مقابلوں میں اس نے شکست کھائی ان سب میں اننگز سے ہارا۔ عالمی کپ 2011ء سے باہر ہو جانے کے بعد سری لنکا کا دورہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا جہاں آسٹریلیا نے 1-0 سے کامیابی اپنے نام کی اور اب جنوبی افریقہ میں بھی کھیلی گئی دو ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کے پہلے معرکے میں ایک اننگز میں 47 رنز پر آؤٹ ہو کر ظاہر کر دیا کہ اب اس کی 'ناقابل تسخیر' والی حیثیت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور بعد ازاں ایک اچھی پوزیشن سے میچ ہار گیا۔ گو کہ دوسرے ٹیسٹ میں وہ بمشکل 2 وکٹوں سے مقابلہ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہا لیکن سیریز برابری کی بنیاد پر ہی ختم ہوئی یوں آسٹریلیا کی سال کی واحد سیریز فتح دورۂ سری لنکا ہی میں رہی۔
اب آسٹریلیا سال کا اختتام نیوزی لینڈ جیسے کمزورحریف کے خلاف اپنے میدانوں میں کرے گا لیکن اب اسے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے یعنی ناتجربہ گیند بازی۔ یکم دسمبر سے گابا، برسبین کو شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ کے لیے جب آسٹریلیا کا دستہ میدان میں اترے گا تو وہ گزشتہ 23 سالوں میں آسٹریلیا کا کمزور ترین باؤلنگ اٹیک ہوگا۔ دستے میں سب سے تجربہ کار پیٹر سڈل ہیں جن کا تجربہ محض 25 ٹیسٹ کھیلنے کا ہے جن میں انہوں نے 82 وکٹیں سمیٹی ہیں جبکہ دوسرے تجربہ کار ناتھن لیون ہیں جنہوں نے محض 5 ٹیسٹ کھیلے ہیں اور 12 حریف کھلاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
نئے کوچ مکی آرتھر کی زیر نگرانی آسٹریلیا کو نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں کم از کم دو گیند بازوں کو ڈیبو کرانا ہوگا جبکہ بلیک کیپس نے آسٹریلوی سرزمین پر اترتے ہی اپنے خطرناک ارادے ظاہر کر دیے ہیں اور برسبین میں کھیلے گئے واحد ٹور میچ میں اس کے تین بلے بازوں نے سنچریاں داغی ہیں جن میں سے خصوصاً جیسی رائیڈر کی شعلہ فشاں اننگز کا حوالہ دینا مناسب ہوگا جنہوں نے ریکارڈ 16 چھکوں کی مدد سے 137 گیندوں پر 175 رنز بنا کر آسٹریلیا کو خطرے کا پیغام دے دیا۔ رائیڈر نے اس اننگز کے دوران فرسٹ کلاس میں سب سے زیادہ چھکوں کا ریکارڈ برابر کیا ہے جو اس وقت گراہم نیپئر اور اینڈریو سائمنڈز کے پاس ہے۔ رائیڈر نے اپنے تابڑ توڑ حملوں کے دوران ایک اوور کے دوران چار چھکے اور ایک چوکا رسید کر کے 28 رنز بھی لوٹے۔ دوسرے اینڈ پر کپتان روز ٹیلر بھی جارحانہ موڈ میں نظر آئے شاید وہ اس کے ذریعے آسٹریلیا کو پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ انہیں ہلکا مت لیا جائے۔ ٹیلر نے 171 گیندوں پر 7 چھکوں اور 11 چوکوں کی مدد سے 138 رنز بنائے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ نیوزی لینڈ 1993ء کےبعد سے آسٹریلیا کو کسی ٹیسٹ میں شکست نہیں دے پایا ہے جبکہ آسٹریلوی سرزمین پر تو اس کی فتح کو 26 سال گزر چکے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ روز ٹیلر، ڈینیل ویٹوری اور برینڈن میک کولم جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ ربع صدی کی اس روایت کو توڑنے کا خواہشمند ہے۔
دوسری جانب آسٹریلیا اپنے پانچ اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم ہو کر اس سیریز میں کھیلے گا جن میں آل راؤنڈر شین واٹسن اور بلے باز شان مارش کے علاوہ تین اہم گیند باز مچل جانسن، ریان ہیرس اور ٹیسٹ کیریئر کا یادگار آغاز کرنے والے پیٹرک کمنز شامل ہیں اور اب ان کی عدم موجودگی میں آسٹریلیا کو پیٹر سڈل اور ناتھن لیون کا ساتھ دینے کے لیے کم از کم دو کھلاڑیوں کو اپنا پہلا ٹیسٹ کھلانا پڑے گا جو ممکنہ طور پر جیمز پیٹن سن اور بین کٹنگ یا مائیکل اسٹارک میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے۔
یہ 1988ء کے دورۂ پاکستان کے بعد پہلا موقع ہوگا کہ آسٹریلیا کا باؤلنگ اٹیک ایسے گیند بازوں پر مشتمل ہوگا جن کی مجموعی وکٹوں کی تعداد 126 سے بھی کم ہے۔ دو 'تجربہ کارترین' گیند بازوں میں سے اسپنر ناتھن لیون نے آج تک گابا، برسبین پر باؤلنگ نہیں کی اس لیے تمام تر ذمہ دار پیٹر سڈل کے کاندھوں پر آئے گی۔
جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں زبردست انداز میں واپسی اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد 2 وکٹوں کی فتح آسٹریلیا کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہو سکتی ہے اور وہ اس سے تحریک حاصل کر کے نیوزی لینڈ کو زیر کر سکتا ہے۔
روایتی حریفوں کے درمیان جنگ صرف دو ٹیسٹ مقابلوں پر مشتمل ہوگی جو آسٹریلیا کے لیے بھارت کے خلاف اہم سیریز کی تیاری دے گی۔ آسٹریلیا-بھارت سیریز کا آغاز 26دسمبر سے ملبورن میں روایتی 'باکسنگ ڈے ٹیسٹ' سے ہوگا۔