چٹاگانگ نے "بہترین" امپائر کو "بدترین" بنا دیا

0 1,157

بنگلہ دیش اور انگلستان کا چٹاگانگ میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ سنسنی خیز مقابلے کے بعد صرف 22 رنز سے مہمانوں کے نام رہا یعنی "بنگال کے شیروں" نے فتح کا سب سے شاندار موقع ضائع کردیا۔ یہ ٹیسٹ جہاں دونوں ٹیموں کے لیے لمحہ بہ لمحہ اعصاب شکن تھا وہیں اس نے امپائر کمار دھرماسینا کے دماغ کی بھی چولیں ہلا دیں، جنہوں نے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے، وہ بھی ایسا کہ جس کے بعد یہ کہنا بالکل ٹھیک ہوگا کہ ہر ریکارڈ خوشگوار نہیں ہوتا۔

اسپن گیند بازوں کی گھومتی ہوئی گیندوں پر ایک ثانیے میں فیصلہ دینا مشکل کام ہے، جس میں یقیناً غلطیوں کا احتمال رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلطیوں کے تدارک کے لیے ڈی آر ایس سسٹم نافذ کیا گیا ہے تاکہ فیصلوں کو چیلنج کیا جا سکے۔ مگر اس مقابلے میں تو حد ہی ہوگئی۔ 26 مرتبہ امپائروں کے فیصلے کو چیلنج کرنا پڑا جن میں سے خاص طور پر کمار دھرماسینا کے فیصلوں سے 16 بار کسی ٹیم نے اتفاق نہیں کیا اور 8 مرتبہ انہیں اپنے فیصلے واپس لینا پڑے۔ یوں وہ ایک نئے مگر انتہائی ناخوشگوار ریکارڈ کے حامل بن گئے ہیں یعنی کسی ایک مقابلے میں سب سے زیادہ فیصلے واپس لینے کا ریکارڈ!

ان میں سے پہلی اننگز میں صرف معین علی کے خلاف دو اوورز میں واپس لیے گئے تین فیصلے بھی شامل تھے۔ معین علی پہلے ہی دو زندگیاں حاصل کر چکے تھے جب شکیب الحسن کے ایک اوور میں سویپ کھیلنے کی کوشش میں ایل بی ڈبلیو قرار دیے گئے۔ ری پلے میں ظاہر ہوا کہ گیند پیڈ تک پہنچنے سے پہلے بلّے کا باریک کنارہ لیتی ہوئی گئی ہے۔ تیسرے امپائر نے بلے باز کے حق میں فیصلہ دیا اور یوں کمار دھرماسینا کو پہلی سبکی اٹھانی پڑی۔

پھر شکیب کا اکلا اوور آیا جس میں ایک نہیں بلکہ دو بار ایسا ہوا کہ بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کی اپیل پر کمار دھرماسینا کی انگلی اٹھی اور دونوں مرتبہ انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ پہلے گیند بہت زیادہ اسپن ہونے کی وجہ سے وکٹوں کی راہ سے باہر نکلتی دکھائی دی اور پھر صرف ایک گیند بعد شکیب کے حق میں ایک مرتبہ پھر فیصلہ آ گیا۔ معین نے دوابرہ فیصلہ چیلنج کیا، ڈی آر ایس نے گیند کو لائن سے باہر قرار دیا اور یوں تیسری بار امپائر کو اپنے فیصلے کے غلط ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔

Kumar-Dharmasena2

پھر انگلستان کی اننگز کے اختتامی لمحات میں جہاں گیند باز اور بلے باز تو تبدیل ہوگئے لیکن شرمندگی بدستور کمار دھرماسینا کے نصیب میں ہی رہی۔ اس بار تیج الاسلام کی گیند اسٹورٹ براڈ کے پیڈ کو چھو گئی۔ گیند باز کی لالچی نظریں امپائر کی جانب اٹھ گئی، جنہوں نے مثبت جواب دیا۔ لیکن یہ فیصلہ پھر چیلنج ہوا وار تیسرے امپائر نے پھر دھرماسینا کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا کیونکہ گیند لیگ اسٹمپ کو بھی نہیں چھو رہی تھی۔

پھر دن گزر گیا، اننگز بدل گئی لیکن کمار دھرماسینا کی قسمت نہیں بدلی۔ جہاں وہ فیصلے دے کر شرمندہ ہو رہے تھے وہاں انہیں آؤٹ نہ دے کر بھی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ انگلستان کی دوسری اننگز کے دوران شکیب الحسن کی گیند عادل رشید کی ٹانگ پر جا لگی۔ گیندباز کی اپیل پر دھرماسینا ٹس سے مس نہ ہوئے لیکن کپتان مشفق الرحیم نے مشاورت کے بعد اس فیصلے کے خلاف 'اعلیٰ عدالت' سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈی آر ایس میں عادل کو آؤٹ قرار دیا گیا اور یوں دھرماسینا کو "ایک مرتبہ پھر" اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

اب تو کمار دھرماسینا کا حال خراب ہوگیا۔ اتنے غلط فیصلے دینے کے بعد تو ان کا خود پر سے اعتماد ہی اٹھ گیا۔ جب بنگلہ دیش ہدف کا تعاقب کر رہا تھا تو معین علی کی گیند پر جو روٹ نے سلپ میں تمیم اقبال کا ایک شاندار کیچ لیا۔ امپائر کے خیال میں یہ آؤٹ تھا لیکن تمیم کے ریویو پر تیسرے امپائر ایس روی نے پایا کہ گیند ان کے بلّے یا دستانے کو چھو کر نہیں گئی اور یوں امپائر صاحب کا ایک اور فیصلہ واپس ہوگیا۔

کمار دھرماسینا کو بعد میں بھی دھچکے برداشت کرنے پڑے۔ ایک تو جب گیرتھ بیٹی نے مومن الحق کو ایل بی ڈبلیو کیا اور فیصلہ امپائر سے تیسرے امپائر سے لیا۔

میچ کے آخری لمحات تک ریویو اور فیصلہ واپس لینے کی ہزیمت سے دھرماسینا کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جب بنگلہ دیش کو صرف 33 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی دو وکٹیں باقی تھیں تب بین اسٹوکس کی ایک گیند تیج الاسلام کے پیڈ پر جا لگی۔ فیلڈ امپائر نے زوردار اپیل کو مسترد کردای لیکن ڈی آر ایس نے ایک مرتبہ پھر کمار کو مایوس کیا اور فیصلہ گیند باز کے حق میں دیا۔

میدان میں موجود امپائروں کے فیصلے کا چیلنج ہونا شاید اتنی بڑی بات نہیں، لیکن اس کے فیصلوں کا بار بار غلط ثابت ہونا مایوس کن ہے، خاص طور پر وہ امپائر جو 2012ء میں سال کے بہترین امپائر کا ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ اس لیے یہ حیران کن بھی ہے اور امپائرنگ کے معیار پر سوالیہ نشان بھی۔