بھارت سے شکست: ورلڈ کپ میں بھی روئے تھے، کھلاڑی اب بھی رو رہے ہوں گے: کامران اکمل
ویراٹ کوہلی کا بگولا پاکستان کے ’عالمی معیار‘ کے باؤلنگ اٹیک کو اڑا لے گیا اور بھارت نے ایشیا کپ کے اہم ترین مقابلے میں پاکستان کو شکست دے دی۔ گو کہ اس کی ابھی تک فائنل تک رسائی یقینی نہیں ہے لیکن بنگلہ دیش کے خلاف حوصلہ شکن ہار کے بعد ایسی فتح سے بھارتی ٹیم کے حوصلے ضرور بلند ہوئے ہوں گے۔
یہ ایشیا کپ 2010ء اور عالمی کپ 2011ء میں ہونے والے آخری پاک بھارت مقابلوں کے بعد پاکستان کی روایتی حریف کے ہاتھوں مسلسل تیسری شکست ہے۔ آخری مرتبہ پاکستان نے ستمبر 2009ء میں چیمپئنز ٹرافی کے ایک مقابلے میں بھارت کو 54 رنز سے شکست دی تھی اور اس کے بعد تینوں مواقع پر اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
اس یادگار آخری فتح کے مرکزی کردار کئی ایسے کھلاڑی تھے جو اب قومی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔ انہی میں سے ایک کامران اکمل بھی ہیں۔ جن سے کرک نامہ نے آج کے میچ کے حوالے سے کچھ خصوصی گفتگو کی ہے۔ جس میں وکٹ کیپر بلے باز کا کہنا تھا کہ ”مجھے آج بھی وہ فتح یاد ہے کیونکہ وہ میچ کوئی معمولی میچ نہیں تھا۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی تھی اور دنیا کی سرفہرست ترین کرکٹ ٹیمیں اس ایونٹ میں شریک تھیں۔ ایسے میں بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم نے 302 رنز بنائے جس میں شعیب ملک کی سنچری اور محمد یوسف کی نصف سنچری نے کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں ہم نے بھارت کو 248 رنز پر آؤٹ کر دیا۔ ڈریسنگ روم میں کیا جشن کا سا سماں بندھ گیا تھا، مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے، ہر کھلاڑی ان لمحات سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ روایتی حریف کے خلاف اس یادگار فتح نے نہ صرف ہمارے حوصلوں کو بلند کیا بلکہ پاکستان کے عوام کے چہروں پر بھی خوشی بکھیری وہ ناقابل بیان لمحات تھے۔“
”بھارت اور پاکستان کا میچ بہت زیادہ تناؤ کے ماحول میں کھیلا جاتا ہے ہماری عوام جس طرح ہمارے لیے دعائیں کرتے ہیں اس سے ہمارا حوصلہ بہت بڑھ جاتا ہے اور ہم پوری جان لگادیتے ہیں کہ بھارت کے خلاف ہمیں فتح ملے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاک بھارت جتنے مقابلے ہوئے ہیں ان میں ہماری ٹیم نے ہرممکن کوشش کی ہے۔
”بالکل جس طرح میں وہ فتح یاد ہے جب پاکستان نے بھارت کو چیمپئنز ٹرافی میں ہرایا تھا بالکل اسی طرح مجھے پچھلے عالم کپ کے سیمی فائنل کی وہ شکست بھی یاد ہے جب ہم میگا ایونٹ سے باہر ہو گئے تھے۔ اس وقت پورے ڈریسنگ روم پر سکوت چھا گیا تھا تھا، میں نام نہیں لینا چاہوں گا لیکن متعدد کھلاڑی تو اس شکست پر باقاعدہ رو پڑے تھے جبکہ ٹیم کے کھلاڑیوں سمیت تمام مینجمنٹ بھی بہت افسردہ تھی کہ ہم اتنے بڑے میچ میں اپنی قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے اور اس شکست کا غم کئی دن تک ہمیں رہا۔
”میں سمجھ سکتا ہوں کہ جس طرح موہالی میں ہونے والے عالمی کپ کے سیمی فائنل میں شکست کے بعد کھلاڑی افسردہ ہو گئے تھے، اسی طرح ایشیا کپ کے آج کے میچ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی بہت افسردہ ہوں گے۔ یقین مانیں جس طرح شائقین کرکٹ کو بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے اسی طرح ہم بھی روایتی حریف کے ہاتھوں شکست پر بہت دل گرفتہ ہوتے ہیں۔ کھلاڑی کبھی بھی نہیں چاہتے کہ پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف ہارے۔
”لیکن آج کے میچ میں ہماری ٹیم نے بری کارکردگی نہیں دکھائی، پہلے بیٹنگ میں جس طرح ناصر جمشید اور محمد حفیظ نے ایک بڑی شراکت پاکستان کو قائم کرکے دی اس کے بعد یونس خان اور عمر اکمل نے بھی اس اچھے اسٹارٹ کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ 329 رنز برا مجموعہ نہیں تھا۔ لیکن ویراٹ کوہلی کی اچھی اننگز کی بدولت پاکستان یہ میچ جیت نہ سکا۔ ہم باؤلنگ کو بھی زیادہ قصور نہیں ٹھیرا سکتے کیونکہ یہی باؤلنگ ہمیں جتواتی آرہی ہے لیکن پاکستان کے پاس اب بھی موقع موجود ہے کہ وہ فائنل سے قبل اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے اور ایشیا کپ جیت کر وطن واپس لوٹے۔
”ویراٹ کوہلی نے بلاشبہ ایک یادگار اننگز کھیلی، جس کی جتنی تعریف کی جائے اتنا کم ہے۔ اس نے بڑے اسکور کے چیلنج کو قبول کیا اور ضرورت کے مطابق اسکور آگے بڑھاتا رہا۔ ساتھ ساتھ روہت شرما کو وکٹ پر بھیجنے کا مہندر سنگھ دھونی کا فیصلہ بھی بہت اچھا تھا تاکہ وہ سعید اجمل کے اوورز آرام سے نکال لیں اور بھارت کی کوئی وکٹ نہ گرے اور یہ حکمت عملی بھی بھارت کی فتح کا سبب بنی۔ میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کروں گا کہ ویراٹ کوہلی جس طرح دو سال سے تواتر سے پرفارمنس دے رہا ہے تو وہ اسی فارم میں رہا تو سچن ٹنڈولکر کے بعد بھارت کا دوسرا بڑا ریکارڈ ساز کھلاڑی ہوگا۔
”میں شائقین کرکٹ سے درخواست کروں گا کہ وہ کسی بھی صورت میں مایوس نہ ہوں میں بھی اُن کی طرح اس شکست پر کافی افسردہ ہوں لیکن ہمیں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرکے اس کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور یہی ٹیم فائنل میں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے گی اور پاکستان کو ایشین چیمپئن بنوائے گی۔
”جس طرح عوام میرے ہاتھوں میں وکٹ کیپنگ گلوز دیکھنا چاہتے ہیں بالکل میں بھی اسی طرح بے قرار ہوں کہ پاکستانی ٹیم میں جلد سے جلد واپس آؤں۔ میں نے ڈومیسٹک میں بھی بھرپور کارکردگی پیش کر کے اپنی فٹنس اور فارم دونوں ثابت کردی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اب جب بھی ٹیم کا انتخاب ہوگا تو سلیکٹرز ایک مرتبہ پھر ضرور موقع دیں گے۔
”ایشیا کپ کے بعد پاکستانی ٹیم کا بھارت سے جب بھی مقابلہ ہوگا تو میری خواہش ہے کہ میں اس ٹیم میں شامل ہوں۔ جس طرح میرے اہل خانہ میری ٹیم میں واپسی کے لیے دعاگو ہیں، مجھے یقین ہے کہ شائقین کرکٹ بھی اسی طرح میرے لیے دعاگو ہوں گے، اور ان کی دعائیں کی بدولت میں پاکستانی ٹیم کا دوبارہ سے حصہ بن جاؤں گا۔“