بنگلہ دیش کا مختصر دورہ: پاکستان کا فائدہ ہوگا یا نقصان؟
2009ء کھیلوں کی عالمی تاریخ کے انوکھے اور افسوس ناک واقعے کے ساتھ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ مکمل طور پر بند ہو گئی۔ لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے پاکستان کے میدانوں کو عرصے کے لیے ویران کر دیا اور اس پر طرّہ یہ کہ اعجاز بٹ کی زیر قیادت نا اہل انتظامیہ کے باعث پاکستان وقت کے ساتھ ساتھ دنیائے کرکٹ میں تنہا ہوتا چلا گیا۔ اس صورتحال میں، جب امن و امان بھی مثالی نہ ہو، وطن عزیز میں کرکٹ جیسے عظیم کھیل کی واپسی کی توقع کرنا عبث تھا۔ پاکستان مختلف ممالک میں اپنی 'ہوم سیریز' کھیلتا رہا یہاں تک کہ اعجاز بٹ کی جگہ ذکا اشرف کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی سونپی گئی اور انہوں نے اپنا پہلا ہدف ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کو قرار دیا جو کہ نہ صرف پی بی بلکہ ہر پاکستان کی خواہش ہے۔
اس ضمن میں گزشتہ سال کے آخری ایام میں پاکستان نے بنگلہ دیش کا ایک اضافی دورہ کیا، جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ اس شرط پر کیا گیا ہے کہ جواب میں بنگلہ دیش پاکستان کا دورہ کرے گا۔ بہرحال، پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں انگلستان کے خلاف ہوم سیریز مکمل کی تو پھر پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیشی ٹیم کے مجوزہ دورہ پاکستان کو حتمی شکل دینے کا مطالبہ شدت پکڑ گیا یہاں تک کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے سربراہ مصطفی کمال کی سربراہی میں ایک 9 رکنی وفد نے پاکستان میں حفاظتی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک دورہ تک کر ڈالا اور اپنے مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔ یوں آخری رکاوٹ بھی عبور ہو گئی اور آئی سی سی، عالمی ذرائع ابلاغ، سیاست دانوں اور افواہوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود فیصلہ ہو گیا کہ بنگلہ دیش رواں ماہ کی 29 و 30 تاریخ کو پاکستان کے خلاف ایک ٹی ٹوئنٹی اور ایک ون ڈے میچ کھیلنے کے لیے لاہور آئے گا اور یوں مارچ 2009ء کے بعد پہلی بار پاکستان کی سرزمین پر کوئی بین الاقوامی مقابلہ ہوگا۔
یہ بات اپنی نہاد میں جہاں پاکستانی کرکٹ کے لیے خوش آئند ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ کئی سوالات بھی ابھرتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہ کہ کیا بنگلہ دیش کا دو روزہ دورہ دیگر ممالک کو قائل کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ وہ پاکستان کو ایک محفوظ ملک سمجھتے ہوئے اپنی ٹیموں کو یہاں بھیجیں؟ فی الحال تو ایسا بالکل بھی نہیں دکھائی دیتا کیونکہ ایک جانب جہاں بنگلہ دیش نے دورۂ پاکستان کی منظوری دی، وہیں خود اس کے ملک میں بڑے پیمانے پر مخالفت شروع ہوچکی ہے۔ علاوہ ازیں ایشیا کپ کے فائنل میں شکست کے بعد بنگلہ دیشی بورڈ کے ناز نخروں سے بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر آئی سی سی کی نائب صدارت پر پاکستان کی حمایت نہ درکار ہوتی تو عین ممکن تھا کہ بنگلہ دیش پاکستان آنے سے انکار کر دیتا۔ پھر محض دو دن کا دورہ کسی بھی ملک کے لیے تشفی طلب نہیں ہے۔ کوئی ٹیم کم از کم پاکستان میں ایک ماہ قیام کرے اور تین شہروں میں جا کر کھیلے تو کسی حد تک ہمارا کرکٹ بورڈ قائل کرنے کے قابل بن سکتا ہے ورنہ اب تک تو اتنی دوڑ دھوپ کے بعد حاصل ہونے والی یہ سیریز سعی لاحاصل لگتی ہے۔
ادھر بنگلہ دیش کی صورتحال یہ ہے کہ اس کے آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے کوچ اسٹورٹ لا نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا اور اب تک یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ ٹیم کے ہمراہ پاکستان تشریف نہیں لائیں گے۔ دوسرا مسئلہ خود بنگلہ دیشی ٹیم کے اندر بھی پیدا ہو گیا ہے کہ ٹیم کے چند اراکین پاکستان کے دورے کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں اور بورڈ کو بالآخر یہ کہنا پڑا ہے کہ وہ کسی کھلاڑی پر دورے کے لیے زور نہیں ڈالے گا، اگر کوئی کھلاڑی پاکستان نہیں جانا چاہتا تو اسے رخصت دے دی جائے گی۔ لہٰذا یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی کرنے والا معاملہ ہے، جسے اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ بنگلہ دیش ایک معیاری کرکٹ ٹیم بھیجے، نا کہ دوسرے درجے کی ٹیم بھیج کر پاکستان کو جگ ہنسائی کا باعث بنائے۔
اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں ہےکہ پاکستان کے لیے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کو واپس لینے کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک جانب بھارت ہے، جس کا اپنی مالی پوزیشن کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ کونسل اور عالمی کرکٹ کے دیگر کرتا دھرتا حلقوں پر بہت زیادہ اثر ہے اور اس کی پاکستان کرکٹ کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ وہ ضرور بنگلہ دیش اور دیگر چھوٹے و بڑے بورڈز پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے پاکستان کرکٹ کو کوئی فائدہ پہنچے۔
دیگر بڑے کرکٹ بورڈز، جو پاکستان کے حق میں نہیں دکھائی دیتے، ان میں انگلستان اور آسٹریلیا سرفہرست ہیں۔ انگلستان کے 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ تنازع کے باعث پاکستان سے کچھ اچھے تعلقات نہیں ہیں گو کہ اس نے چند ماہ قبل پاکستان کے خلاف سیریز کھیل کر اس برف کو کچھ پگھلایا ہے لیکن ابھی دونوں کے تعلقات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ پاکستان اپنی کوئی بات منوانے کی پوزیشن میں ہو۔ دوسری جانب آسٹریلیا ہے، جس نے اسٹورٹ لا کو استعفے کے فوراً بعد جس طرح اپنا لیا ہے، و ہ اس امر کی واضح مثال ہے کہ وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہے۔ آسٹریلیا نے نائن الیون کے بعد سے پاکستان کا کوئی دورہ نہیں کیا اور جب بھی فیوچر ٹورز پروگرام کے تحت اسے پاکستان آنا پڑتا، وہ سیکورٹی کی صورتحال کا بہانہ تراش کے پاکستان کو کسی اور میدان پر گھسیٹتا، چاہے وہ سری لنکا ہو، متحدہ عرب امارات یا پھر انگلستان۔ پاکستان کو 1998ء کے بعد سے آج تک اپنے میدان پر آسٹریلیا کے خلاف سیریز کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ یہی وہ پہلی ٹیم تھی جس نے سب سے پہلے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بنا کر فرار کی راہ اختیار کی حالانکہ انگلستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ جیسی ورلڈ کلاس ٹیموں حتی کہ بھارت کو بھی پاکستان آنے میں کوئی اعتراض نہ تھا۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی، چاہے وہ کتنا ہی مختصر قدم کیوں ہی نہ ہو، ایک بہت بڑی پیشرفت ہے لیکن پاکستان کو اس کے ثمرات پر نظر رکھنی ہوگی، اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا اور ایک جانب جہاں حفاظتی انتظامات کو واقعتا فول پروف بنانا ہوگا وہیں اس سیریز سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی بھی ترتیب دینا ہوگی۔ اس ضمن میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ و جلد از جلد کسی ٹیم کے ساتھ ایک اور سیریز کے انعقاد کو ممکن بنائے اور کوشش کرے کہ سیریز طویل ہو جس میں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی تینوں میچز شامل ہوں تاکہ اسے دیگر ممالک اور آئی سی سی کو قائل کرنے میں آسانی ہو۔