کیا مشتاق احمد پاکستان کے باؤلنگ کوچ بن سکتے ہیں؟
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں چند دنوں سے ایک خبر بڑی گرم ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سابق اسپنر مشتاق احمد کو قومی کرکٹ ٹیم کا نیا باؤلنگ کوچ بنانے جا رہا ہے۔ گو کہ بنگلہ دیش کے اچانک دورۂ پاکستان کے اعلان نے اس خبر کو کچھ پس پشت ڈال دیا ہے لیکن اس کے باوجود اس خبر کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ مشتاق احمد، جو اس وقت انگلستان کے اسپن کوچ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، عاقب جاوید کی جگہ خالی ہونے والے باؤلنگ کوچ کے قومی عہدے کو حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن ۔۔۔۔۔ ان کی تقرری میں ایک بہت بڑا "تکنیکی مسئلہ" ہے، جس سے یا تو جان بوجھ کر نظریں چرائی جا رہی ہیں یا پھر بورڈ کے کرتا دھرتا اور ذرائع ابلاغ اس سے آگاہ نہیں ہیں۔
مشتاق احمد ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو 2000ء میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ جسٹس قیوم کمیشن کے روبرو پیش ہوئے تھے۔ جہاں ان پر نہ صرف میچ فکسنگ کے سنگین الزامات عائد ہوئے بلکہ کمیشن نے اپنے فیصلے میں جن کھلاڑیوں پر کڑی نظر رکھنے اور انہیں مستقبل میں ٹیم اور بورڈ میں کوئی بڑا عہدہ نہ دینے کی سفارش کی ان میں وسیم اکرم کے علاوہ دوسرا نام مشتاق احمد کا تھا۔ اس طرح مشتاق احمد کو تو سرے سے پاکستان کے کوچ بننے کے لیے نا اہل ہونا چاہیے۔
دوسری جانب گزشتہ چند سالوں سے بھارتی پریمیئر لیگ کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے ساتھ منسلک سابق پاکستانی فاسٹ بالر وسیم اکرم، جو بلاشبہ تیز باؤلنگ کی دنیا میں بہت بڑا نام ہیں، کو بھی جسٹس قیوم کی سفارشات کے بعد سے پاکستان کرکٹ ٹیم اور بورڈ میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا اور موزوں ترین امیدوار ہونے کے باوجود انہیں کبھی پاکستان کا باؤلنگ کوچ نہیں بنایا گیا، اس لیے بالکل یہی اطلاق مشتاق احمد پر بھی ہوتا ہے۔
مشتاق احمد انگلستان کی کرکٹ ٹیم کے اسپن باؤلنگ کوچ ہیں اور ان کے عہد میں انگلستان نے اس شعبے میں کافی ترقی بھی کی ہے۔ انگلش اسپنر گریم سوان عالمی درجہ بندی میں سرفہرست پوزیشن تک پہنچے ہیں اور انگلستان نے ان کی مدد سے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن یہ امر حقیقت ہے کہ پاکستان میں ان کو کوئی ذمہ داری عطا کرنا نہ صرف عدالتی فیصلے کی توہین ہوگی بلکہ دیگر کئی حوالوں سے بھی یہ فیصلہ زیادہ سود مند ثابت ہونے کی توقع نہیں۔
درحقیقت ماضی میں اگر جسٹس قیوم کمیشن کی سفارشات پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا اور کھلاڑیوں کو بجائے معمولی جرمانوں اور تنبیہ کے کڑی سزائیں دی جاتیں تو پاکستان میں فکسنگ کا معاملہ اتنا گمبھیر ہی نہ ہوتا۔ بہرحال، اگر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) جسٹس قیوم کمیشن کی اس رپورٹ کہ جس کی وجہ سے پاکستان میں پہلی مرتبہ فکسنگ کا بھوت بوتل سے باہر آیا تھا کو ردی کی ٹوکری کی نظر کرنا چاہتا ہی ہے تو پھر پاکستانی ٹیم کے لیے مشتاق احمد سے زیادہ مفید وسیم اکرم ثابت ہوسکتے ہیں۔
مشتاق احمد ایک اسپنر ہیں اور ان کا اب تک کوچنگ کا تجربہ بھی اسپن باؤلنگ کا ہے جبکہ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تیز گیند بازی ہے۔ اسپن میں پاکستان کو سعید اجمل، محمد حفیظ اور شاہد آفریدی کی صورت میں تین ایسے گیند باز میسر ہیں جو گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوا چکے ہیں جبکہ تیز گیند بازی کا شعبہ مستقل مسائل سے دوچار ہے۔ بالخصوص محمد آصف اور محمد عامر جیسے اہم گیند باز گنوا بیٹھنے، عمر گل کی غیر مستقل مزاجی، جنید خان کے فٹنس مسائل، وہاب ریاض اور کسی حد تک اعزاز چیمہ کی ناقص کارکردگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قومی ٹیم میں نئے خون کو شامل کرنے کے لیے ایک جامع مہم چلانا ایک ایسے شخص کا ہی کام ہو سکتا ہے جو اس ضمن میں تجربہ بھی رکھتا ہو اور ایک گہری نظر بھی۔ اور سابق کوچ وقار یونس کے ہم عصر وسیم اکرم ان تمام خوبیوں کے حامل ہیں کہ جو نہ صرف ایک تیز گیند باز اور کوچ میں موجود ہونا چاہیئں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کی نظر میں دو امیدوار اہم ہیں ایک سابق تیز باؤلر محمد اکرم اور ایک انگلستان سے تعلق رکھنے والے این پونٹ۔ این پونٹ کوچنگ کا خاصا تجربہ بھی ہے اور وہ ماضی قریب میں بنگلہ دیش کے باؤلنگ کوچ بھی رہ چکے ہیں اور حال ہی میں بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کی فاتح ٹیم 'ڈھاکہ گلیڈی ایٹرز' کے ہیڈ کوچ کے عہدے سے مستعفی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب کرکٹ کمنٹری سے وابستہ اور برطانیہ میں مقیم محمد اکرم کوچنگ کے سلسلے میں کم معروف نام ضرور ہیں لیکن انگلستان میں کھیلنے کا وسیع تجربہ اور پاکستان کے ماحول سے آشنائی انہیں ایک اہم امیدوار بناتی ہے۔
اس دوڑ میں مشتاق احمد کی شمولیت پر پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا بغلیں بجانا عجیب سا لگتا ہے۔ سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ کا کہنا ہے کہ مشتاق احمد مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں اور اس حوالے سے اخبار نے گزشتہ ماہ لاہور میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکا اشرف کے ساتھ ان کی دو مبینہ ملاقاتوں کا حوالہ بھی دیا ہے کہ جس میں معاہدے کی ابتدائی شقوں کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ اخبار کا کہنا ہے کہ مشتاق احمد کا انگلش کرکٹ ٹیم کے ساتھ معاہدہ دورۂ سری لنکا کے بعد ختم ہو چکا ہے اور اگلے چند روز میں منیجنگ ڈائریکٹر ای سی بی انہیں نئے معاہدے کی پیشکش کریں گے لیکن جنگ کا دعویٰ ہے کہ مشتاق احمد پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں اور وہ نئے معاہدے کی پیشکش ٹھکرا دیں گے۔
اُدھر ملک کے دوسرے سب سے بڑے اردو اخبار روزنامہ ایکسپریس کا کہنا ہے کہ مشتاق احمد کے کوچ بننے کے امکانات روشن ہیں اور انہوں نے بھی چیئرمین کے ساتھ ان کی دو ملاقاتوں کا حوالہ دیا ہے۔ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشتاق احمد انگلش کرکٹ بورڈ سے حاصل ہونے والے معاوضے کے نصف پر بھی 'ملک کے لیے خدمات' انجام دینے کو تیار ہیں۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ ڈیو واٹمور اور جولین فاؤنٹین کی موجودگی میں بورڈ تیسرا غیر ملکی کوچ رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور یہاں ایک عجیب منطق بھی لڑائی ہے کہ اگر باؤلنگ کوچ پاکستانی ہوگا تو وہ انگریزی بولنے والے کوچز کے ساتھ ٹیم کے رابطے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ ہے نا حیران کن بات! 🙂