’وہ ایک رن‘ سنگاکارا 199 ناٹ آؤٹ، نویں ڈبل سنچری سے محروم رہ گئے
سری لنکا کے عظیم بلے باز کمار سنگاکارا گال ٹیسٹ میں اپنی شانداربیٹنگ کے باعث ٹیم کو پاکستان کے خلاف قوی پوزیشن میں تو لے آئے لیکن اسے قسم کی ستم ظریفی کہیے یا کچھ اور، وہ اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر پائے۔ خود آؤٹ ہو جاتے تو شاید اپنی غلطی کو دوش دیتے لیکن جب دوسرے اینڈ سے بلے باز کے آؤٹ ہو جانے کے باعث آپ ایک تاریخی سنگ میل سے محروم ہو جائیں تو اس کاغم زیادہ ہی ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی سنگا کے ساتھ ہوا۔ وہ جب سنچری سے 7 قدم کے فاصلے پر تھے تو میدان میں نصب اسکور بورڈ غلطی سے ان کا اسکور 194 دکھا رہا تھا۔ انہوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سعید اجمل کو ڈیپ مڈوکٹ کی جانب ایک کرارا چھکا رسید کیا اور جشن منانے شروع ہو گئے۔ میدان بھر میں تالیاں گونجتی رہیں اور کھلاڑی پویلین میں کھڑے ہو کر ’عظیم سنگا‘ کو داد دے رہے تھے کہ کچھ دیر میں اندازہ ہوا کہ سنگا کی ڈبل سنچری ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور وہ 199 پر ہیں۔ کپتان مہیلا جے وردھنے اور دیگر کھلاڑیوں نے باہر سے اشارے کر کے انہیں بتایا کہ ابھی ایک اور رن بنانا ہے۔ سنگاکارا کو بھی اندازہ ہو گیا، انہوں نے آخری گیند پر رن دوڑنے کی کوشش کی لیکن گیند حریف فیلڈر کے ہاتھ میں تھی اس لیے موقع نہ مل سکا اور یہیں سے سنگاکارا کے دل کو دھچکا پہنچا۔
اب اگلے اوور میں آخری بلے باز نووان پردیپ کو پاکستانی قائم مقام کپتان محمد حفیظ کا سامنا کرنا تھا اور پہلی گیند پر بچ جانے کے بعد وہ دوسری گیند پر اپنا دفاع نہ کر سکے اور آف اسٹمپ کھو بیٹھے۔ یوں سنگاکارا 2001ء میں زمبابوے کے اینڈی فلاور کے بعد کرکٹ کی تاریخ کے دوسرے بلے باز بن گئے جو 199 رنز پر تنہا ہی رہ گئے اور دوسرے اینڈ سے پوری ٹیم آل آؤٹ ہو گئی۔ سنگاکارا کو تا عمر ’وہ ایک رن‘ یاد رہے گا، جو وہ نہ لے پائے اور اپنی نویں ڈبل سنچری سے محروم ہو گئے۔
وہ پہلے بھی ایک مرتبہ اپنی ڈبل سنچری کے قریب آ کر محروم ہو گئے تھے جب وہ 2007ء میں آسٹریلیا کے خلاف ہوبارٹ ٹیسٹ میں 192 رنز بنا کر امپائر روڈی کوئرٹزن کے ایک ناقص فیصلے کا شکار ہوئے اور ان کے واپس لوٹنے کا نقصان سری لنکا کو یہ اٹھانا پڑا کہ وہ میچ بھی 96 رنز سے ہار گیا۔
سنگا گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے خلاف ابوظہبی میں بھی ڈبل سنچری بنا چکے ہیں، اور ہارا ہوا میچ بچانے میں کامیاب ہوئے جبکہ 2002ء میں لاہور میں پاکستان کے ’ورلڈ کلاس‘ باؤلنگ اٹیک کے خلاف 230 رنز کی اننگز تو شاید وہ تاعمر نہیں بھولیں گے۔ وہ پاکستان کے خلاف ان کے کیریئر کا پہلا میچ تھا، 2002ء کی ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل۔ پاکستان کے وقار یونس، شعیب اختر، محمد سمیع اور عبد الرزاق کا ایک سبز پچ پر سامنا کر کے ایک تاریخی اننگز کھیل کر ٹیم کو جتوانا بھلا کون بھول سکتا ہے۔
بہرحال، ان کے علاوہ جنوبی افریقہ کے خلاف کولمبو میں 287 اور زمبابوے کے خلاف بلاوایو میں 270 رنز بلاشبہ ’شاہکار اننگز‘ تھے۔ اگر آج انہیں ایک رن میسر آ جاتا تو وہ مجموعی طور پر نویں اور پاکستان کے خلاف تیسری ڈبل سنچری مکمل کر لیتے۔ لیکن اس کے باوجود اپنی کمال اننگز کے ذریعے وہ جو دباؤ پاکستان پر قائم کر چکے ہیں، اس سے پاکستان کم از کم اس ٹیسٹ میں تو نہیں نکل پائے گا۔