[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 21

1 1,211

قارئین کے سوالوں کے جوابات کا سلسلہ اب 21 ویں قسط تک پہنچ چکا ہے، اگر آپ بھی کرکٹ کے حوالے سے کوئی سوال پوچھنا چاہتے ہیں تو اس صفحے پر موجودہ سادہ سا فارم پر کیجیے اور ہم اگلی قسط میں آپ کو اس سوال کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کریں۔ فی الحال آپ آج کی قسط سے لطف اٹھائیے۔

سوال: بین الاقوامی کرکٹ کونسل اب تک کتنے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنے "ہال آف فیم" میں شامل کر چکی ہے؟ احسان محمد

ہال آف فیم میں پاکستان کی جانب سے حنیف محمد کے علاوہ عمران خان، جاوید میانداد اور وسیم اکرم کو شامل کیا گیا ہے (تصویر: PA Photos)
ہال آف فیم میں پاکستان کی جانب سے حنیف محمد کے علاوہ عمران خان، جاوید میانداد اور وسیم اکرم کو شامل کیا گیا ہے (تصویر: PA Photos)

جواب: بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے جنوری 2009ء میں فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشنز (فیکا) کے تعاون سے "آئی سی سی کرکٹ ہال آف فیم" متعارف کروایا جس میں کرکٹ کے لیجنڈری کھلاڑیوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ جنوری 2009ء میں ابتداءً 55 کھلاڑیوں کو ہال آف فیم میں شامل کیا گیا جن میں چند مشہور نام یہ ہیں: ڈبلیو جی گریس، جم لیکر، ڈان بریڈمین، رچرڈ ہیڈلی، این بوتھم، جیک ہوبس، گیری سوبرز، ویوین رچرڈز، والٹر ہیمنڈ، حنیف محمد، عمران خان، ڈینس للی، کلائیو لائیڈ، میلکم مارشل، مائیکل ہولڈنگ اور سنیل گاوسکر۔

آئی سی سی نے جن کھلاڑیوں کو اس فہرست میں شامل کرتی ہے انہیں ایک خصوصی تقریب میں خاص ٹوپی (کیپ) سے نوازا جاتا ہے۔ جن کھلاڑیوں کا انتقال ہوچکا ہے ان کے لواحقین کو مدعو کیا جاتا ہے۔

اب تک آئی سی سی 72 لیجنڈری کرکٹرز کو اس فہرست میں شامل کر چکا ہے جن میں 69 مرد اور 3 خواتین ہیں۔ان72 میں سب سے زیادہ انگلستان کے کھلاڑی شامل ہیں جن کی تعداد 26 ہے جبکہ آسٹریلیا کے 19، ویسٹ انڈیز کے 17، پاکستان کے 4، بھارت کے 3، جنوبی افریقہ کے2 اور نیوزی لینڈ کا ایک کھلاڑی اس فہرست کا حصہ ہے۔

آخری بار مشہور زمانہ لیگ اسپنر شین وارن کو ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ انہیں انگلستان میں جاری ایشیز 2013ء سیریز کے دوسرے ٹیسٹ کے دوران لارڈز میں ایک خصوصی تقریب میں کیپ سے نوازا گیا۔

پاکستان کی طرف سے حنیف محمد، عمران خان، جاوید میانداد اور وسیم اکرم آئی سی سی ہال آف فیم میں جگہ پانے والے کھلاڑی ہیں۔

بھارت کے سنیل گاوسکر، کپل دیو اور بشن سنگھ بیدی جبکہ جنوبی افریقہ سے گریم پولاک اور بیری رچرڈز اورنیوزی لینڈ سے رچرڈ ہیڈلی اس فہرست میں شامل ہیں۔

سوال: ٹیسٹ اور ون ڈے میں ایسا کتنی بار ہوا ہے کہ صرف دو باؤلرز نے ہی کسی ٹیم کو آل آؤٹ کر دیا ہو؟ تیسرے کو کوئی وکٹ ہی نہ ملی ہو؟ حسیب رزاق

جواب: کرکٹ میں اس طرح کے واقعات متعدد بار رونما ہوچکے ہيں جب دو گیندبازوں نے مل کر پوری مخالف ٹیم کو آؤٹ کیا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں 52 مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک ٹیم صرف دو باؤلرز کی 5، 5 وکٹوں کے باعث ڈھیر ہوگئی ہو۔ اسی طرح ایسا بھی کافی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک گیندباز نے 6 اور دوسرے نے 4 وکٹیں حاصل کر کے حریف اننگز کا خاتمہ کر دیا ہو۔

1994ء میں سری لنکا کے خلاف کانڈی ٹیسٹ میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے مل کر سری لنکا کو ڈھیر کیا تھا (تصویر: Getty Images)
1994ء میں سری لنکا کے خلاف کانڈی ٹیسٹ میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے مل کر سری لنکا کو ڈھیر کیا تھا (تصویر: Getty Images)

ٹیسٹ کرکٹ میں 14 مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک اننگز میں صرف دو ہی گیند بازوں کا استعمال کیا گیا ہو اور انہوں نے مل کر حریف کی تمام 10 وکٹیں حاصل کر لی ہوں۔ آخری مرتبہ یہ کارنامہ پاکستان نے انجام دیا تھا جب 1994ء میں سری لنکا کے خلاف کانڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے مل کر سری لنکا کو ڈھیر کیا تھا۔ اس اننگز میں وقار نے 6 جبکہ وسیم نے 4 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

ٹیسٹ کرکٹ میں 6 مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ دو گیندبازوں نے مل کر حریف ٹیم کی دونوں اننگز کا خاتمہ کیا ہو۔ ان میں سے 4 مرتبہ یہ واقعہ ایشیز میں پیش آیا جبکہ ایک مرتبہ جنوبی افریقہ-آسٹریلیا میں ایک مرتب پاک-آسٹریلیا میچ میں۔ 1956ء میں پاک-آسٹریلیا کراچی ٹیسٹ میں فضل محمود اور خان محمد نے دونوں اننگز میں آسٹریلیا کی تمام وکٹیں حاصل کر ڈالی ۔ میچ میں فضل کی وکٹوں کی تعداد 13 جبکہ خان محمد کی 7 تھی۔ پاکستان یہ ٹیسٹ 9 وکٹوں سے جیتا تھا۔

آخری مرتبہ 1972ء کے لارڈز ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے دو گیندبازوں ڈینس للی اور باب میسی نے مل کر انگلستان کی ٹیم کو دو مرتبہ آؤٹ کیا جن میں میسی کی وکٹوں کی تعداد 16 جبکہ للی کی وکٹوں کی تعداد 4 تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مقابلہ میسی کا پہلا ٹیسٹ تھا۔

ایک روزہ کرکٹ میں 4 جون 1977ء کو آسٹریلیا کے گیری کوئزر اور گریگ چیپل نے انگلستان کے خلاف برمنگھم کے مقام پر ایک اننگز میں 5،5 وکٹیں حاصل کر کے انگلش ٹیم کے آل آؤٹ کیا۔ دسمبر 2001ء میں سری لنکا کے چمندا واس اور متیاہ مرلی دھرن نے کولمبو میں زمبابوے کو ڈھیر کیا۔ میچ میں واس نے 8 اور مرلی دھرن نے دو وکٹیں حاصل کی۔ 14جولائی 2013ء کو پاکستان کے شاہد آفریدی نے 7اور محمد عرفان نے دو وکٹیں حاصل کر کے ویسٹ انڈیز کو ڈھیر کیا جبکہ ایک کھلاڑی رن آؤٹ ہوا۔ ایک روزہ میں ایسے اور بھی کئی واقعات ہوئے ہیں جب دو گیندبازوں نے مل کر مخالف ٹیم کو آل آؤٹ کیا ہوا۔ 31 جنوری 2001ء کو نیپئر میں سری لنکا بمقابلہ نیوزی لینڈ ون ڈے میں سری لنکا کے مرلی دھرن نے 5 جبکہ ایرک اپاشانتھا نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور ایک حریف بلے باز رن آؤٹ ہوا۔ اسی طرح 3 فروری 2013ء کو پرتھ میں ویسٹ انڈیز-آسٹریلیا مقابلے میں آسٹریلیا کے کلنٹ میک کے نے 5 جبکہ گلین میکس ویل نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ویسٹ انڈیزکا ایک بلے باز رن آؤٹ ہوا۔

سوال: ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ (Duckworth–Lewis method) کیا ہے؟ یہ کس نے کب دیا تھا اور اس سے کس طرح پتہ لگایا جاتا ہے بارش وغیرہ سے متاثرہ میچ کے سکور کا؟ محمد بلال اعظم

ڈک ورتھ لوئس طریقے کے موجد فرینک ڈک ورتھ اور انتھونی لوئس
ڈک ورتھ لوئس طریقے کے موجد فرینک ڈک ورتھ اور انتھونی لوئس

جواب: کرکٹ کا کھیل کھلے آسمان تلے میدانوں میں کھیلا جاتا رہا ہے اور ایسے میں کئی مقابلے بارش کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ٹیسٹ میں تو کافی دن ہوتے ہیں اور اگر ایک دن بارش کی نذر ہو بھی جائے تو باقی دنیا میں کرکٹ کھیلی جا سکتی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں ایک روزہ کرکٹ میں نتیجہ نکالنے کے لیے ماہر ریاضی دان سر جوڑ کر بیٹھے کہ بارش کی صورت میں مقابلے کو کس طرح نتیجہ خیز بنایا جائے۔ نتیجے کا کچھ حل عالمی کپ 1992ء میں 'بیسٹ اسکورنگ اوورز' طریق کار کے نام سے استعمال کیا گیا لیکن اس میں کئی خامیاں تھیں۔ خصوصاً سڈنی میں انگلستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیمی فائنل نے تو اس نظام کی قلعی ہی کھول کر رکھ دی جب جنوبی افریقہ کو درکار 13 گیندوں پر 22 رنز کا ہدف بارش کی وجہ سے ایک گیند پر 22 رنز پر پہنچ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی افریقہ شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔

عالمی کپ 1992ء کے اس بھیانک تجربے کے بعد برطانیہ کے ایک ماہر شماریات فرینک کارٹر ڈک ورتھ اور ریاضی دان ٹونی لوئس نے اس مسئلے کا حل نکالا جسے ڈک ورتھ-لوئس طریق کا رکا نام دیا گیا۔

1996-97ء میں انگلستان کے دورۂ زمبابوے میں اس قانون کا پہلی بار باقاعدہ استعمال کیا گیا۔ ہرارے اسپورٹس کلب گراؤنڈ پر یکم جنوری 1992ء کو ہونے والے سیریزکے پہلے مقابلے میں ہی یہ طریق کار استعمال کرنا پڑا اور انگلستان کو 42 اوورز میں 186 رنز کا ترمیم شدہ ہدف ملا۔ انگلستان 179 رنز ہی بنا پایا یوں زمبابوے نے یہ مقابلہ 7 رنز سے جیت لیا (اور بعد میں اگلے دونوں مقابلے بھی جیت کر انگلستان کے خلاف سیریز میں تین-صفر سے وائٹ واش بھی کیا)۔ 2000-01ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے باضابطہ طور پر ڈی-ایل طریق کار کو اپنے معیارات کا حصہ بنایا۔ اسے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ایک روزہ مقابلے میں دونوں ٹیموں کو کم از کم 20، 20 اوورز اور ٹی ٹوئنٹی میں کم از کم 5،5 اوورز کھیلنے ضروری ہیں۔ یہ طریقہ کیسے کام کرتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے کرک نامہ کی یہ خصوصی تحریر ملاحظہ کریں۔

سوال: کرکٹ کی ابتداء کس نے کی اور یہ کیسے شروع ہوئی؟ عزیز نور

جواب: کرکٹ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سولہویں صدی میں گلڈفرڈ، انگلستان میں کرکٹ کھیلنے کے شواہد ملتے ہیں اور 1598ء میں کرکٹ کا لفظ اطالوی-انگریزی لغت میں ملتا ہے۔

اٹھارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں پہلا انٹر-کاؤنٹی میچ کینٹ اور سرے کے مابین ڈارٹ فرڈ برینٹ کے مقام پر کھیلا گیا تھا اور 1844ء میں امریکہ اور کینیڈا کے درمیان سہ روزہ مقابلہ سینٹ جارجز کلب گراؤنڈ، نیو یارک میں ہوا تھا جو کینیڈا نے 23 رنز سے جیتا۔ پھر 1877ء میں پہلا ٹیسٹ مقابلہ ملبورن میں آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان کھیلا گیا جو آسٹریلیا نے 45 رنز سے جیتا۔

سوال: ایک روزہ مقابلوں میں شاہد آفریدی کو اکثر اپنی ہی گیند پر کیچ لیتے دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے اب تک اپنی ہی گیند پر کتنے کیچ پکڑے ہیں؟ عدیل احمد

شاہد آفریدی نے اپنے ایک روزہ کیریئر میں 21 مرتبہ اپنی ہی گیند پر حریف بلے باز کا کیچ تھاما ہے (تصویر: AFP)
شاہد آفریدی نے اپنے ایک روزہ کیریئر میں 21 مرتبہ اپنی ہی گیند پر حریف بلے باز کا کیچ تھاما ہے (تصویر: AFP)

جواب: شاہد آفریدی نے ایک روزہ کرکٹ میں اب تک 21 کیچ اپنی ہی گیند پر پکڑے ہیں جو کہ ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں کسی بھی باؤلر کی اپنی ہی گیند پر کیچ پکڑنے کی تیسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ ریکارڈ سری لنکا کے مرلی دھرن کے پاس ہے جنہوں نے اپنی ہی گیند پر 35 کیچ لے رکھے ہیں۔ دوسرے نمبر پر نیوزی لینڈ کے کرس ہیرس کا نام ہے جنہوں نے 29 کیچ تھامے ہیں۔ جبکہ شاہد آفریدی کے بعد پاکستان کے ثقلین مشتاق چوتھے نمبر پر ہیں جنہوں نے ایک روزہ کرکٹ میں 20 ایسے کیچ پکڑے ہیں جب وہ خود گیندبازی کر رہے تھے۔