[باؤنسرز] کیا جیت نے خامیوں کو چھپا دیا ہے؟
وہی ہوا جس کا اندازہ گزشتہ تحریر میں لگایا تھا کہ زمبابوے کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں ناکام ہونے والی بیٹنگ لائن میں سے کوئی ایک بیٹسمین دوسری باری میں بڑی اننگز کھیل کر پاکستان کو جیت کی راہ پر گامزن کردے گا اور پاکستانی ٹیم یہ میچ جیت لے گی۔ پھر ایسا ہی ہوا یونس خان کی ڈبل سنچری جیت کی ضمانت بن گئی اور سینئر بیٹسمین نے اپنے کیرئیر کو بھی مستحکم کرلیا، مگر سوال جوں کا توں اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کا ٹاپ آرڈر زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف بھی کیوں ناکام ہورہا ہے؟
پہلی اننگز میں 27اور دوسری باری میں 23 پر تین وکٹیں گنوا کر پاکستانی ٹیم مشکلات کے دہانے پر کھڑی تھی کہ یونس خان کے علاوہ مصباح الحق اور عدنان اکمل نے قومی ٹیم کو رسوائی سے بچا لیا اور ساڑھے تین سیشنز تک میچ پر حاوی رہنے والی زمبابوے کی ٹیم کو شکست سے دوچار ہونا پڑ گیاجو زمبابوے کی بدقسمتی تھی۔پاکستانی ٹیم نے زمبابوے کے خلاف جیسے تیسے ٹیسٹ میچ تو جیت لیا مگر ایسی کارکردگی کے ساتھ بڑی ٹیموں کے خلاف کامیابی کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ خصوصاً اب جبکہ پاکستان کو آئندہ سری لنکا اور جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیموں کا سامنا ہوگا۔ یونس خان اور سعید اجمل اس میچ کے ہیرو ثابت ہوئے جو اس ٹیم کے سینئر اور عمر رسیدہ کھلاڑی ہیں مگر ان دونوں کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ وہ آج بھی فتح گر کھلاڑی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کو کم و بیش ہر مرتبہ اچھی پرفارمنس کیلئے انہی سینئر کھلاڑیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جیت خامیوں کو چھپا دیتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ زمبابوے کے خلاف ہرارے ٹیسٹ میں ملنے والی 221رنز کی ریکارڈ ساز فتح نے بھی قومی ٹیم کی خامیوں پر پردہ ڈال دیا ہے مگر 17 ماہ کے عرصے میں پہلی ٹیسٹ کامیابی حاصل کرنے والے کوچ ڈیو واٹمور کو کامیابی کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیم کی خامیوں پر قابو پانے کیلئے بھی کوئی فارمولا آزمانا ہوگا کیونکہ زمبابوے کے خلاف تو پاکستانی ٹیم اپنی خامیوں کے باوجود سیریز جیت لے گی مگر جب قومی ٹیم کا مقابلہ جنوبی افریقہ اور سری لنکا سے ہوگا تو یہ خامیاں واٹمور کیلئے مصیب کا پھندہ بن سکتی ہیں۔
ہرارے ٹیسٹ میں پاکستان کے دونوں اوپنرز محمد حفیظ اور خرم منظور دونوں اننگز میں ناکام ہوئے جبکہ مشکوک فٹنس کے حامل محمد حفیظ نے پورے میچ میں باؤلنگ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ٹیسٹ فارمیٹ میں محمد حفیظ کی ناکامیوں میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر پاکستان کرکٹ کے اس مضبوط ترین"پروفیسر" کو ٹیم سے ڈراپ کرنا شاید کسی کے بھی بس میں نہیں ہے۔محمد حفیظ کی مضبوط پوزیشن انہیں ایک مرتبہ پھر بچا لے گی مگر خراب پرفارمنس کا سارا نزلہ خرم منظور پر گرے گا جس کیلئے اگلا ٹیسٹ کھیلنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔
دو برس پہلے تک پاکستان کو قابل اعتماد اوپننگ جوڑی میسر آچکی تھی مگر اب ایک مرتبہ پھر افتتاحی بیٹنگ کا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے جس کا فوری حل بھی دکھائی نہیں دےرہا۔دوسرے ٹیسٹ میں اگر خرم منظور کو ڈراپ کیا گیا تو ناتجربہ کار شان مسعود کو ڈیبیو کرنے کا موقع مل جائے گا جسے انٹرنیشنل کرکٹ کا کوئی تجربہ نہیں ہے جبکہ ڈومیسٹک سطح پر بھی اوپنر کا ریکارڈ زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔ اگر دوسرے ٹیسٹ میں بھی اوپنرز ناکام رہے تو جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کے خلاف سیریز کیلئے قابل اعتماد اوپنرز کی جوڑی تلاش کرنا سلیکشن کمیٹی کیلئے یقینا ایک کھٹن کام ہوگا۔
زمبابوے کے خلاف ہرارے ٹیسٹ میں جیت کا سہرا یونس خان اور سعید اجمل کے سر بندھا اور سینئر کھلاڑیوں کا پرفارم کرنا اور فتح گر کارکردگی دکھانا نہایت خوش آئند ہے مگر ٹیم میں موجود نوجوان اور نسبتاً کم تجربہ کار کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بدستور سوالیہ نشان لگا ہوا ہے جو مواقع حاصل کرنے کے باوجود ایسی پرفارمنس دکھانے میں ناکام رہے ہیں جو سینئر کھلاڑیوں کو اطمینان کے ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہنے کا موقع فراہم کرسکے۔پاکستانی ٹیم اس وقت ٹیسٹ فارمیٹ کی عالمی درجہ بندی میں چھٹے نمبر ہے جس کا ایک سبب کم ٹیسٹ میچز کھیلنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس فارمیٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے بہت سے کھلاڑی پانچ روزہ کرکٹ میں ملنے والے مواقع کو دونوں ہاتھوں سے پکڑنے میں ناکام بھی رہے ہیں جس کے باعث ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی ترقی کا سفر رک سا گیا ہے۔