جنوبی افریقہ کی نگاہیں سیمی فائنل پر، نیوزی لینڈ تاریخ دہرانے کا خواہاں

0 1,039

عالمی کپ 2011ء کا تیسرا کوارٹر فائنل آج (جمعے کو) ڈھاکہ میں ہوگا جس میں جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ آمنے سامنے ہوں گے۔

اس کوارٹر فائنل کی فاتح ٹیم 29 مارچ کو کولمبو میں انگلستان-سری لنکا مقابلے کی فاتح کا سامنا کرے گی جو کل (سنیچر کو) کولمبو میں ہی کھیلا جائے گا۔ جبکہ دیگر کوارٹر فائنل مقابلوں میں پاکستان اور بھارت کی فتوحات کے باعث دوسرے سیمی فائنل کی مقابل ٹیموں کا فیصلہ ہو چکا ہے اور یہی دونوں ٹیمیں 30 مارچ کو چندی گڑھ میں آمنے سامنے ہوں گی۔

جنوبی افریقہ عالمی کپ کے سخت ترین گروپ یعنی گروپ'بی' میں سرفہرست رہا ہے جبکہ نیوزی لینڈ نے گروپ 'اے' میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ جس کی وجہ سے دونوں کا کوارٹر فائنل میں ٹکراؤ ہو رہا ہے۔

جنوبی افریقہ انگلستان کے خلاف حیران کن شکست کے علاوہ پورے ٹورنامنٹ پر چھایا رہا ہے اور تمام مقابلوں میں فتح حاصل کی ہے، جس میں میزبان بھارت کے خلاف سنسنی خیز مقابلے کے بعد جیتی گئی بازی بھی شامل ہے۔ حالیہ بھرپور فارم اور متوازن ٹیم ہونے کے باعث کوارٹر فائنل میں جنوبی افریقہ کا پلڑا واضح طور پر بھاری نظر آتاہے۔

رابن پیٹرسن، جنہوں نے گیند اور بلے دونوں کے ساتھ اپنی شاندار کارکردگی دکھائی ہے، میچ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں

حریف نیوزی لینڈ کی کارکردگی بہت زیادہ اچھی نہیں رہی اور وہ سوائے پاکستان کو شکست دینے کے کسی بڑی ٹیم کو زیر نہیں کر سکی۔ آسٹریلیا اور سری لنکا دونوں نے اس کے خلاف میچز باآسانی جیتے۔ اور وہ چھوٹی ٹیموں کو شکست دے کر ہی کوارٹر فائنل مرحلے تک پہنچا ہے۔

دونوں ان چند ٹیموں میں شامل ہیں جن کا ٹکراؤ 1992ء سے لے کر آج تک ہونے والے تمام عالمی کپ ٹورنامنٹس میں ہوا ہے۔ ہمیشہ جنوبی افریقہ فیورٹ کی حیثیت سے میچ میں داخل ہوا لیکن 5 میں سے صرف دو مرتبہ ہی اسے فتح نصیب ہوئی۔ نیوزی لینڈ کا پروٹیز کے خلاف یہی ریکارڈ ماہرین کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔

1992ء میں جب پہلی بار دونوں ٹیموں کا عالمی کپ میں سامنا ہوا تو مقابلہ با آسانی ان فارم اور میزبان نیوزی لینڈ کے نام رہا تھا۔ 1996ء اور 1999ء میں جنوبی افریقہ نے میدان مارا جبکہ آخری مرتبہ دونوں ٹیمیں 2003ء اور 2007ء کے عالمی کپ ٹورنامنٹس میں مدمقابل آئیں اور دونوں مرتبہ فتح نے نیوزی لینڈ کے قدم چومے۔ 2007ء کے عالمی کپ میں دونوں ٹیموں کا سامنا سپر ایٹ مرحلے میں ہوا تھا جہاں جنوبی افریقہ محض 193 پر ڈھیر ہو گیا اور جواب میں نیوزی لینڈ نے ہدف با آسانی 5 وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ اس فتح کی بدولت نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل میں جگہ پائی تھی۔

آج جنوبی افریقہ ہر گز نہیں چاہے گا کہ 2003ء اور 2007ء کی کہانی دہرائی جائے۔ وہ یہی چاہے گا کہ جس طرح 96ء میں اس نے برصغیر میں نیوزی لینڈ کو شکست دی تھی بالکل اسی طرح اس مرتبہ بھی میدان مارے۔ اس کے لیے وہ اسپن جال بچھانے کی کوشش کرے گا، جس میں نیوزی لینڈ پہلے بھی پھنس چکا ہے جب اسے سری لنکا کے خلاف شکست ہوئی تھی۔

اگر روز ٹیلر پاکستان کے خلاف پیش کردہ کارکردگی دہرانے میں کامیاب رہے تو جنوبی افریقہ کے لیے بڑے مسائل کھڑے ہو جائيں گے

مجموعی طور پر دونوں ٹیمیں 51 مرتبہ ایک روزہ مقابلوں میں آمنے سامنے آ چکی ہیں جن میں 30 مرتبہ فتح جنوبی افریقہ کے نام رہی اور 17 مرتبہ نیوزی لینڈ نے جیت کا مزا چکھا۔ 4 میچز بغیر نتیجے کے ختم ہوئے۔ عالمی کپ میں کھیلے گئے 5 میں سے 3 میچز بلیک کیپس کے نام رہے ہیں اور آخری دونوں مقابلوں میں بھی اسی نے فتوحات حاصل کی ہیں۔

اگر برصغیر کی اسپنرز کے لیے مددگار پچوں کو مدنظر رکھا جائے تو نیوزی لینڈ کے لیے سب سے بڑا خطرہ عمران طاہر ہوں گے جنہوں نے عالمی کپ میں جتنے بھی میچ کھیلے ان میں شاندار کارکردگی دکھائی اور ثابت کیا کہ وہ عالمی کپ میں جنوبی افریقہ کا 'خفیہ ہتھیار' ہیں۔ اس کے علاوہ رابن پیٹرسن بھی بھرپور فارم میں ہیں جو جاری ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے باؤلر ہیں۔

دوسری جانب جنوبی افریقہ کے لیے ڈینیل ویٹوری ایک خطرناک کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک اچھے اسپنر اور قائد ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تجربہ کار بھی ہیں اور وہ یقینا اس تجربے کو بروئے کار لائیں گے۔ جنوبی افریقہ کو جن کھلاڑیوں کو باندھ کر رکھنا ہوگا ان میں برینڈن میک کولم اور روز ٹیلر بھی شامل ہیں۔ میک کولم اپنی شعلہ فشانی کے باعث معروف ہیں جبکہ روز ٹیلر نے حال ہی میں اپنی شاندار سنچری اننگ کی بدولت پاکستان کے خلاف ٹیم کو فتح دلائی تھی۔